ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
اَورہرطہر میں ایک طلاق دی جائے اِس کے بعد حضور اَکرم ۖ نے مجھے رجوع کرنے کاحکم فرمایا چنانچہ میں نے رجوع کرلیا پھر فرمایا جب وہ پاک ہو جائے تو تم کو اِختیار ہے چاہو تو طلاق دے دینایا اُس کو روکے رکھنا۔ حضرت ابن ِعمر فرماتے ہیں پھر میںنے رسول اللہ ۖ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر میں نے تین طلاقیں دی ہوتیں تو کیا میرے لیے رجوع کرنا جائز ہوتا ؟ حضور ۖ نے فرمایا اِس صورت میں بیوی تم سے جدا ہو جاتی اَور تمہارا یہ فعل ( تین طلاقیں ایک ساتھ دینا ) گناہ ہوتا۔'' آپ نے دیکھا کہ مذکورہ بالا حدیثوںمیں تین طلاق سے تین ہی طلاق کے واقع ہونے کا حکم ہے۔ اِن کے علاوہ اَوربہت سی روایتیں صراحتاً اِس پر دَلالت کرتی ہیں کہ تین طلاقوں سے تین ہی طلاقیں واقع ہوں گی، ایک نہیں۔ نوٹ : ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے اپنی تقریر میں سعودیہ کے تین سو علماء کے فتاوے کا حوا لہ دیاپھر اپنی رائے بھی پیش کی لیکن یہ ذکر نہیں کیا کہ وہ کون سے علماء ہیں جبکہ سعودی عرب کی تحقیقات ِعلمیہ کے مؤقر مفتیان نے تین طلاق سے تین ہی طلاق کا فتوی دیا ہے ۔ قراردَاد اِس طرح ہے : بَعْدَ الْاِطِّلَاعِ عَلَی الْبَحْثِ الْمُقَدَّمِ مِنَ الْاَمَانَةِ الْعَامَةِ لِھَیْئَةِ کبَارِ الْعُلَمَائِ وَالْمُعَدُّ مِنْ قِبَلِ لُجْنَةِ الدَّائِمَةِ لِلْبُحُوْثِ وَالْاِفْتَائِ فِْ مَوْضُوْعٍ '' اَلطَّلَاقُ الثَّلَاثُ بِلَفْظٍ'' وَبَعْدَ دِرَاسَةِ الْمَسْأَلَةِ وَتَدَاوُلِ الرَّأِْ وَاسْتِعْرَاضِ الْاَقْوَالِ الَّتِیْ قِیْلَتْ فِیْھَا وَمُنَاقَشَةِ مَا عَلٰی کُلِّ قَوْلٍ مِّنْ اِیْرَادٍ تُوْصِلُ الْمَجْلِسُ بِاَکْثَرِیَّتِہ اِلٰی اِخْتِیَارِ الْقَوْلِ بِوُقُوْعِ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ بِلَفْظٍ وَّاحِدٍ ثَلَاثًا ……الخ (مجلة البحوث السلامیة ، المجلد الأول، العدد الثالث سنة 1397) (د) پوری دُنیامیں عیدایک دِن ہو : ڈاکٹر صاحب ایک پروگرام '' گفتگو '' میں تقریر کرتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ : '' مسلمانوں کو ایسا طریقہ اَپناناچاہیے کہ پوری دُنیامیں ایک دِن عید ہو سکے۔ ''