ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
(ب) خطبہ ٔجمعہ عربی زبان کے بجائے مقامی زبان میں ہوناچاہیے : ایک موقع پر خطبہ جمعہ سے متعلق ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں :'' میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں جمعہ کا خطبہ مقامی علاقائی اَور مادری زبانوں میں دِیے جانے کا اہتمام کیا جائے تاکہ....... الخ ۔'' حالانکہ حضور ۖ کے زمانے سے لے کر آج تک خطبہ ٔجمعہ عربی زبان میں دینے پر توار ث چلا آرہا ہے ، آج ڈاکٹر صاحب یہ دعوت دے رہے ہیںکہ خطبہ مقامی زبان میں ہوناچاہیے تاکہ لوگ سمجھ سکیں ، جبکہ یہ مصلحت ( غیر عربی جاننے والوں کا سمجھنا) حضور ۖکے زمانے میں بھی موجود تھی اِس لیے کہ حضور علیہ السلام کے خطبے میں عرب کے علاوہ عجم کے لوگ بھی شریک ہوتے تھے لیکن حضور ۖ نے ہمیشہ عربی زبان میں خطبہ دیاکسی دُوسری زبان میں خطبہ نہیں دِلوایا اَور نہ ہی بعد میں اِس کا ترجمہ کروایا، اِسی طرح صحابہ کرام،تابعین ،تبع تابعین اَور اُنکے متبعین عرب سے نکل کر عجم میں گئے، مشرق و مغرب میں اِسلام پھیلایا لیکن ہر جگہ ہمیشہ خطبہ ٔجمعہ عربی میں ہی دیا حالانکہ اِن حضرات کو تبلیغ دین کی ضرورت آج سے زیادہ تھی جبکہ بعض صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم عجمیوں کی زبان خوب جانتے تھے لیکن پھر بھی خطبہ ٔجمعہ عربی ہی میں دیا کرتے تھے ۔ حا صل کلام یہ ہے کہ خلفائے راشدین صحابہ کرام اَورتابعین عظام کے تعامل و مواظبت اَور ساری اُمت کا توارُث اِس بات کی واضح دلیل ہے کہ خطبہ عربی زبان ہی میں ضروری ہے یہاں تک کہ اِمام مالک فرماتے ہیں کہ جمعہ کی صحت کیلیے خطبہ کا عربی زبان میں ہونا ضروری ہے اگرچہ پورا مجمع عجمیوں کا ہو عربی کوئی نہ جانتا ہو اَور اگر عربی میں خطبہ پڑھنے والا مجمع میں کوئی نہ ہو تو لوگوں پر ظہر کی اَدائیگی لازم ہو گی جمعہ ساقط ہو جائیگا۔وَلَوْکَانَ الْجَمَاعَةُ عَجَمًا لَایَعْرِفُوْنَ الْعَرَبِیَّةَ ، فَلَوْ کَانَ لَیْسَ فِیْھِمْ مَنْ یُّحْسِنُ الْاِتْیَانَ بِالْخُطْبَةِ عَرَبِیَّةً لَمْ یَلْزَمْھُمْ جُمْعَة۔(حاشیة الدسوق علی الشرح الکبیر:378/1، نقلا عن المقالات الفقہیة) نیز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :''خطبہ کا خاص عربی زبان ہی میں ہونا ضروری ہے کہ تمام مسلمانوں کا مشرق ومغرب میں ہمیشہ اِسی پر عمل رہا ہے ۔''( مصفی شرح موطا ص ٢ ١٥ مطبع فاروق دہلی)