ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
طرح مرد سے کم درجہ دیا ہے یا مرد سے بھی بڑھا دیا ہے؟ مساوات : اَور یہ بحث تو صرف ''دیت'' یعنی مالی بدل کے بارے میں ہے'' قصاص'' میں نہیں۔ وہاں جان کے بدلے جان برابر ہے۔ اگر قاتل مل جائے اَور عورت کے ورثہ قاتل کی طرف سے پیش کردہ دیت کی صورت قبول نہ کریں تو عورت کے بدلے اُسے قتل ہی کیا جائے گا اِس میں قطعی مساوات ہے۔ غریب بوڑھی بیمار عورت کے قاتل کو چاہے وہ کتنا ہی مال دار اَور پہلوان ہو قصاص میں قتل ہی کیا جائے گا۔ حنفی مسلک تو یہ ہے کہ مقتول کے وارِثوں کو صرف قصاص (یعنی) خون کے بدلے خون ہی کے مطالبہ کا حق ہے اُنہیں یہ حق ہی نہیں کہ وہ قاتل سے دیت اَور رُوپیہ کا مطالبہ کریں یہ مطالبہ اَور پیشکش قاتل کرے گا عورت کے ورثہ کو چاہیے(یعنی اِختیار ہے) کہ وہ دیت منظور نہ کریں۔ دَراصل ہمیں ایسی باتوں کے جواب میں دُشواری اِس لیے پیش آتی ہے کہ ہم اِسلام کے کسی ایک قانون کو موجودہ غیر اِسلامی قوانین کے درمیان لا کر دیکھتے ہیں حالانکہ اِسلام کا ہر قانون اُس کے پورے اِقتصادی ڈھانچہ کا تصور کر کے دیکھنا چاہیے تب ہی اُس کی جامعیت نظر آسکتی ہے۔ موجودہ قوانین میں اِسلام کا ایک قانون شامل کر دینے سے اُس کی اَفادیت نظر نہیں آسکتی۔ ایک اِشکال یہ پیش کیاگیا ہے کہ قرآن کریم میں ''اَلنَّفْسَ بِالنَّفْسِ'' یعنی جان کے بدلے جان عام ہے لہٰذا عورت اَور مرد کی دیت برابر ہونی چاہیے۔ حالانکہ یہ اِستدلال غلط ہے۔ اَلنَّفْسَ بِالنَّفْسِ کا مطلب تو قصاص ہے نہ کہ دیت۔ کیونکہ بنو نضیر کا یہودی قبیلہ دُوسرے یہودی قبیلہ بنو قریظہ کو اپنے سے کمتر سمجھتا تھا اَور بنو قریظہ کی دیت بنو نضیر سے نصف ہوتی تھی اَور بنوقریضہ کے کسی آدمی کو بنو نضیر کا کوئی آدمی قتل کردیتا تھا تو قصاص نہیں لیا جاتا تھا صرف دیت ہی دی جاتی تھی اَور اگر بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے آدمی کو قتل کر دیتا تھا تو وہ ایک کے بدلے ایک ورنہ دو یا زائد قُرظیوں کو قتل کرتے تھے ۔ اُن کا یہ رواج حکم ِتوراة کے خلاف تھا۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے آج بھی یہ طریقہ ہمارے ملک میں صوبہ سرحد کے آزاد قبائل میں (اَور بزنجو صاحب ١ نے بتلایا کہ) بلوچستان کے آزاد قبائل میں موجود ہے۔ ١ غوث بخش بزنجو : عبدالولی خان کی پارٹی کے مرکزی عہدے دار اَورسابق گورنر بلوچستان