ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
ہادیٔ عالم نبیٔ اَکرم ۖ کے اِس فیصلہ کن اِرشادِ عالی کے بعد اَب معاملہ صاف ہے وہ تمام منگھڑت اَعمال ورسومات جن پر آج اہلِ بدعت قائم ہیں اُن میں سے ایک ایک بات کو پیغمبر ۖ کی بتائی ہوئی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے پھر فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا صحیح ہے اَور کیا غلط؟ اَور کیا سنت ہے اَور کیا بدعت؟ محرم کی تعزیہ داری، اَکھاڑے بازی اَور کھچڑے کی نذرونیاز ہو یا شب ِبراء ت کا حلوہ، عرس کے نام پر تماشے ہوں یا شہادت کے نام پر ماتم اِن کا دَورِ نبوت اَور دَورِ صحابہ ث میں کہیں اَتہ پتہ نہیں ملتا، یہ سب ہواء وہوس کے پرستاروں کی اِیجادات ہیں، مقدس مذہب اِسلام اِس طرح کی خرافات سے پوری طرح بری ہے، نبیٔ اَکرم ۖ کے لائے ہوئے کامل مکمل دین میں اِن تماشوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے اَور جو شخص اِن بے اَصل باتوں ہی کو اَصل دین قرار دے وہ یقینا دین کی بنیادوں کو مٹانے والا اَور شریعت ِبیضاء کی شان پر بدنما داغ لگانے والا ہے۔ اللہ تعالی اُمت کو ہر طرح کی بدعات سے محفوظ رکھے اَور اہلِ بدعت کی تلبیسات سے بچائے رکھے، آمین۔ (ج) پیغمبر علیہ السلام پر وَالہانہ وَارفتگی : حضراتِ صحابہ ث کی علمی گیرائی کا ایک واضح اثر یہ بھی تھا کہ صحابہ ث کا پورا معاشرہ نبیٔ کریم ا کی ایک ایک سنت پر جان چھڑکتا تھا اَور اُن کی نظر میں پیغمبر علیہ السلام کے اُسوۂ مبارکہ سے بڑھ کر کوئی چیز نہ تھی۔ آپ ۖ کے حکم کی تعمیل ہی اُن کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ تھا۔ کیا مرد کیا عورتیں، کیا جوان کیا بوڑھے سب جذبہ اِطاعت واِظہارِ محبت میں ایک دُوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ اُن کے نزدیک پیغمبر علیہ السلام کی خلاف ورزی کرنے یا آپ کی منشاء کے خلاف کرنے کا تصور ہی نہ تھا، اُن میں کا ہر شخص آپ ۖ کا سچا تابعدار اَور مخلص فدائی تھا۔ حدیث کی کتابوں میں اِس سلسلہ کا ایک اَثر اَنگیز واقعہ لکھا ہے کہ ایک نوجوان صحابی حضرت طلحہ بن البراء ص جب آپ ۖ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ ۖ کے قریب آکر قدم بوسی کا شرف حاصل کرتے تھے۔ ایک دِن انہوں نے آکر عرض کیا کہ ''یا رسول اللہ! آپۖ مجھے جو چاہیں حکم دیں میں آپ ۖ کی ہرگز خلاف ورزی نہ کروں گا''۔ نبی اَکرم ا کو اِن کی نوعمری کے باوجود اِس طرح کا سوال کرنے پر تعجب