ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
میں یہی کرتے پایا ہے کہ وہ بیس رکعت تراویح پڑھتے ہیں۔( ترمذی ص ٩٩ ج ١ ) غرض یہ ہے کہ تَعَامُلِ بَلَدْ یعنی کسی شہر کے علماء کا کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا یا اِس سے زیادہ درجہ کا تعامل کہ بہت سے شہروں یا پوری مملکت کے علماء کا متفق ہوجانا کسی مسئلہ کے ثبوت کے لیے حدیث ِصحیح سے بھی بڑے درجہ کی دلیل مانا گیا ہے۔ یہ اِجماع ہی کی ایک شکل ہے۔ تعامل نہیں بلکہ اِجماع : اِمام مالک اَور اہلِ مدینہ اَور اِمام اَحمد عورت کے لیے ایک تہائی اَور پھر نصف دیت کے قائل ہیں نصف سے نہیں بڑھتے اَور علماء عراق اَور اِمام اعظم اَور اُن کے اَساتذہ نخعی ، شعبی وغیرہ اَور اِمام شافعی جن کا آخری دَور مصر میں گزرا ہے نصف دیت کے قائل ہیں ۔چاروں ائمہ میں نصف سے زیادہ کا کوئی قائل نہیں یہ اِجماعِ اُمت نہیں تو اَور کیا ہے۔ اَور اِس فیصلہ کاثبوت حضرت عمر، عثمان و علی رضی اللہ عنہم سے ہے ۔ روایات ِ ائمہ کرام : ٭ اِبراہیم نخعی اَور شعبی کی روایت کے بارے میں یہ عرض ہے کہ اِبراہیم نخعی اَور حضرت شعبی کوفہ کے رہنے والے ہیں اِبراہیم سے حضرت حماد نے اَور اُن سے اِمام اعظم اَبو حنیفہ نے پڑھاہے اَور شعبی سے بھی اِمام اعظم نے پڑھاہے ۔شعبی اِبراہیم سے بہت بڑے تھے (پیدائش ٧ اھ) اِبراہیم اُن سے عمر میں بہت چھوٹے تھے (پیدائش ٥٠ھ کے قریب) لیکن بڑھاپے کی عمر سے پہلے ہی ٩٥ھ میں وفات پاگئے۔ شعبی اُن کی وفات کے بعد تک حیات رہے حتی کہ اِمام اعظم نے اُن سے پڑھا۔ یہ اِمام اعظم کے سب سے بڑے درجہ کے اُستاذ ہیں۔ اُنہوں نے پانچ سو صحابہ کرام کو پایا ہے۔(تذکرة الحفاظ للذہبی ص ٨١ ج ١ ) اِبراہیم اَور شعبی دونوں حضرات قاضی شریح رحمة اللہ علیہ کے شاگرد تھے۔ قاضی شریح نے جناب رسول اللہ ۖ کا زمانہ پایا ہے مگر صحابی نہ تھے۔ اُنہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوفہ کا قاضی مقرر کیا تھا پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ میں تشریف فرما ہوئے تو آپ نے بھی اُنہیں اُسی عہدے پر برقرار رکھا۔ ٧٨ھ یا ٨٠ھ میں اِن کی وفات ہوئی، ایک سو بیس سال عمر پائی ،وفات سے ایک سال قبل حجاج بن یوسف کو اِستعفٰی دے دیا تھا۔ اِنہوںنے حضرت عمرحضرت علی اَور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی علم حاصل کیااَور رَوایات لیں۔( تذکرة الحفاظ ص ٥٩ ج ١ )