ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
اَور عروة بن الزبیر (مدنی) بھی اِسی کے قائل تھے اَور یہی فتوی زید بن ثابت اَور ابن عباس کا تھا رضی اللہ عنہم۔ (المُنْتَقٰی (باجی) ص ٧٨ ج٧ ) یہ سب روایات جن میں ایک تہائی اَورپھر زیادہ سے زیادہ نقصان پر بڑھ کر نصف تک عورت کی دیت کاہوجانا مذکور ہے اہلِ مدینہ کی دلیلیں ہیں لیکن نصف سے زیادہ دیت نہ ہونا یہ سب مانتے ہیں اِس پر سب کا اِتفاق ہے اِمام اَعظم ہوں یا اِمام مالک اِمام شافعی ہوں یا اِمام احمد رحمہم اللہ۔ یہ توروایات کا تذکرہ تھا۔ اَقوال و فتاوٰی اَئمہ کرام : اَب ائمہ کرام رحمہم اللہ کے اَقوال وفتاوی بھی ملاحظہ ہوں۔ اِمام محمد رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اِرشادہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہوگی وَبِذٰلِکَ نَأْخُذُ (کتاب الاصل ص ٤٥٢ ج٤) کتاب الآثار میں روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کااِرشاد کہ ہر چیز میں عورت کی دیت مرد سے نصف ہے زیادہ پسند ہے اَور یہی اَبو حنیفہ کا قول ہے وَھُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَةَ (کتاب الآثار ص ١٠١ ۔کتاب الحجہ ص ٢٧٦ ج ٤ ) وہ مزید تحریر فرماتے ہیں : فَقَدِ اجْتَمَعَ عُمَرُ وَعَلِیّ عَلٰی ھٰذَا فَلَیْسَ یَنْبَغِیْ اَنْ یُّوْخَذَ بِغَیْرِہ حضرت عمر و علی رضی اللہ عنہما اِس پر متفق ہیں تو اِس کے سوا اَور کوئی قول نہ لینا چاہیے۔( کتاب الحجہ ص٢٨٤ ج٤ ) یہ حنفی ائمہ کرام کے اَقوال ہیں۔ اِمام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : دِیَةُ الْمَرْأَةِ وَجَرَاحُھَا عَلَی النِّصْفِ مِنْ دِیَةِ الرَّجُلِ فِیْمَا قَلَّ اَوْ کَثُرَ۔ (مختصرالمُزنی ص ٢٤٦) ''عورت کی دیت اَور اُس کے زخموں کی دیت مردسے نصف ہوگی زخم کم ہوں یا زیادہ ۔'' اِمام مالک رحمہ اللہ کا اِرشاد اُن کی کتاب موطامیں موجود ہے۔ اَور موطا کی شرح المنتقی کے حوالہ سے اَبھی اِس کا ذکر ہوچکا ہے۔ حنبلی مسلک یہی ہے جو اِمام مالک رحمہ اللہ کا ہے ۔