ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
حضرت عبد اللہ بن مغفل صایک جلیل القدر صحابی ہیں اُن کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ میں نے حضراتِ صحابہ ث میں اپنے والد سے زیادہ بدعت کا سخت مخالف کسی کو نہیں دیکھا، ایک مرتبہ میں نے نماز پڑھتے ہوئے سورہ فاتحہ میںبسم اللہ الرحمن الرحیم زور سے پڑھ دی جس کو موصوف نے سن لیا اَور اِرشاد فرمایا : یَا بُنَیَّ ِیَّاکَ وَالْحَدَثَ فَِنِّیْ صَلَّیْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ا وَاَبِیْ بَکْرٍص وَعُمَرَ ص وَعُثْمَانَ ص فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِّنْہُمْ یَقُوْلُ ذٰلِکَ، ِذَا قَرَأْتَ فَقُلْ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ ''بیٹے! بدعت سے بچتے رہو اِس لیے کہ میں نے نبی اَکرم ۖ حضرت ابو بکرص حضرت عمرص اَور حضرت عثمان غنی صکے پیچھے نماز پڑھی ہے تو میں نے اُن میں سے کسی کو بھی بسم اللہ (جہراً) پڑھتے ہوئے نہیں سنا، لہٰذا جب تم قراء ت کرو تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ سے اِبتدا کیا کرو۔'' یہ باتیں دیکھنے میں معمولی ہیں لیکن اِن سے یہ اَندازہ لگانا دُشوار نہیں ہے کہ حضراتِ صحابہ ث ہر اُس کام سے بیزار تھے جو پیغمبر علیہ الصلوة والسلام سے ثابت نہ ہو اَور جو شخص بھی علم ِصحیح کا حامل ہوگا وہ کبھی بھی بے سند اَور من گھڑت عقائد ورسومات کو قبول نہیں کرے گا۔ بدعت کا سبب جہالت ہے یا شرارت : غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُمت میں بدعت کی اِشاعت کے پیچھے دو اَسباب کار فرما رہے ہیں: (١) اَوّل یہ کہ دُشمنانِ اِسلام نے دین میں بگاڑ پیدا کرنے کی غرض سے نہایت شاطرانہ طور پر فکری اَور عملی بدعتیں مسلم معاشرہ میں داخل کردیں اَور اُن کے اِس قدر فضائل ومناقب بیان کیے کہ اُمت کا ایک بڑا طبقہ اُن سے متاثر ہوکر گمراہی کے راستہ پر چل پڑا اَور اُس نے صحیح دینی عبادات کو پسِ پشت ڈال کر من گھڑت رسومات ہی کو دین سمجھ لیا۔ (٢) بدعات پھیلنے کا دُوسرا بڑا سبب جہالت ہے۔ جہالت اَور بدعت لازم ملزوم ہیں، جہاں دینی اعتبار سے جہالت پائی جائے گی وہاں بدعت کا ہونا یقینی ہے کیونکہ جب صحیح بات کا علم ہی نہ ہوگا تو دینی لبادہ اَوڑھ کر جو شخص بھی بدعات رائج کرنا چاہے گا اُس پر کوئی نکیر کرنے والا نہ ہوگا اَور لوگ جہالت کی وجہ سے اُس