ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
(ج) تین طلاق سے ایک ہی طلاق ہونی چاہیے : ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں :'' تین طلاق کے لیے اِتنی شرائط ہیں جن کا پورا ہونا نا ممکن ہے ۔ سعودیہ کے تین سو فتوے موجود ہیں ، اِس لیے طلاق ایک ہے، آج کے حالات کے مطابق ایک ہونی چاہیے ۔'' ( خطبات ذاکر نائیک بحوالہ حقیقت ذاکر نائیک ص ٢٣١) حالانکہ صحابہ کرام ، تابعین عظام ،ائمہ اَربعہ اَورجمہور اُمت نیز موجودہ دَو رکے سعودیہ عربیہ کے تمام معتبر علماء کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق سے تین ہی طلاق واقع ہوتی ہے ایک نہیں اِس مسئلے میں پوری تاریخ میں کسی معتبر عالم کا اِختلاف نہیں سوائے علامہ ابن ِتیمیہ رحمة اللہ علیہ اَور اُن کے شاگرد علامہ ابن القیم کے لیکن پوری اُمت ( جن میں بڑے بڑے تابعین ، چاروں ائمہ اِمام اَبو حنیفہ، اِمام شافعی، اِمام مالک اَور اِمام اَحمد بن حنبل رحمة اللہ علیہم شامل ہیں ) کے مقابلے میں اِن دو حضرات کی رائے قطعاً قابل اِتباع نہیں ہے، ڈاکٹر صاحب ایسے اِجماعی حکم کے خلاف مسئلہ بیان کرکے اُمت کو گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ حکم یعنی تین طلاقوں سے تین ہی طلاق کا واقع ہونا قرآن کی آیت ، بے شمار اَحادیث اَور صحابہ کرام کے تعامل سے واضح طور پر ثابت ہے ، چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں : (١) وَقَالَ اللَّےْثُ عَنْ نَّافِعٍ کَانَ ابْنُ عُمَرَ ِذَا سُئِلَ عَمَّنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا قَالَ لَوْطَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَیْنِ (لَکَانَ لَکَ الرَّجْعَةُ) فَِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِیْ بِھٰذَا (أَْ بِالْمُرَاجَعَةِ)فَاِنْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا حُرِّمَتْ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ ۔ (بخاری شریف ج ٢ ص ٧٩٢ و ٨٠٣) ''حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے جب اُس شخص کے متعلق فتوی دریافت کیا جاتا جس نے تین طلاقیں دی ہوں توفرماتے اگر تو نے ایک یا دو طلاق دی ہوتی ( تورجوع کر سکتا تھا ) اِس لیے کہ حضور ۖ نے مجھ کو اِس کا ( یعنی رجعت کا ) حکم دیا تھا اَوراگر تین طلاق دیدے تو عورت حرام ہوجائے گی یہاں تک کہ وہ دُوسرے مرد سے نکاح کرے۔''