ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
اِن روایات میں مردوں اَور عورتوں کی نماز میں مختلف طرح کے فرق کاذکر ہے۔ اِن کے علاوہ اَور بھی حدیثیں ہیںجو اِس موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں تفصیل سے دیکھی جا سکتی ہیں اَور جہاں تک دُوسری بات یعنی بخاری شریف میں عورتوں کو مردوں کی طرح بیٹھنے سے متعلق حکم نبوی کی بات، تو یہ ایک غلط اِنتساب ہے، حضرت اُم دَرداء رضی اللہ عنہاکی جس روایت کا ڈاکٹر صاحب نے حوالہ دیا ہے، اُس کے اِلفاظ یہ ہیں :وَکَانَتْ اُمُّ الدَّرْدَائِ تَجْلِسُ فِیْ صَلَا تِھَا جِلْسَةَ الرَّجُلِ وَکَانَتْ فَقِیْہَةً ۔( بخاری شریف ج ١ ص ١١٤) اِس میں کہیں بھی حضور ۖ کے قول و فعل کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایک صحابیہ کا عمل ہے جس کاذکر کرکے اِمام بخاری نے اِشارہ بھی کردیا کہ وہ خود فقہیہ تھیں وہ اپنے اِجتہاد سے ایسا کرتی تھیں، نیز اِمام بخاری نے اِسے تعلیقًا ذکر کیاہے ، سند ذکر نہیں کی ہے۔ -4 ائمہ مجتہدین کے اِتباع سے فرار اَور مسائلِ فقہیہ میں سوادِ اَعظم کی راہ سے نمایاں اِنحراف : ڈاکٹر صاحب اپنی تحریرات اَور تقریرات کی روشنی میں کسی اِمام کے متبع معلوم نہیں ہوتے بلکہ اِباحیت، جدت پسندی نیز غیر مقلدیت اَور لامذہبیت کے شکار ہیں،صرف یہی نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کسی متعین اِمام کی تقلید نہیںکرتے بلکہ ائمہ کی تقلید کرنے والے مخلص عوام کوعدم ِتقلید کی روِش اَپنانے کی تعلیم دیتے ہیں اَور اپنے بیان کردہ مسائل میں کہیں کسی اِمام کا قول و اِستنباط کردہ حکم اپنی طرف منسوب کر کے نقل کرتے ہیں اَور کہیں خود مجتہدانہ اَنداز پر مسئلے بیان کرنے لگتے ہیں جبکہ اِن مسائل کو نقل کرنے میںاُس متعین اِمام کا نام لینا چاہیے جنہوں نے اِس مسئلہ کا اِستنباط کیاہے تاکہ سننے والے کویہ مغالطہ نہ ہو کہ قرآن و سنت سے صرف یہی ثابت ہے اِس کے علاوہ جو دُوسری باتیں لوگوں کے عمل میں ہیں چاہے وہ قرآن و حدیث سے ثابت اَور ائمہ مجتہدین کا قول کیوں نہ ہو غلط ہیں ،ذیل کی مثالوں سے مذکورہ باتوں کا بخوبی اَندازہ ہو جائے گا ، ملاحظہ فرمائیں : (الف) بِلاوضو قرآن چھونا جائز ہے : ڈاکٹر صاحب ایک جگہ کہتے ہیں : '' بِلا وضو قرآن کریم چھونے کی اِجازت ہونی چاہیے .... الخ۔'' حالانکہ ڈاکٹر صاحب کا یہ قول آیت کریمہ لَا یَمَسُّہ اِلأَ الْمُطَھَّرُوْنَ نیز تمام ائمہ مجتہدین کے خلاف ہے۔