Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011

اكستان

51 - 65
ہے کیونکہ صحابہث کا واسطہ اَگر درمیان سے ہٹ جائے تو پھر دین کی کوئی بات بھی مستند نہ رہ پائے گی اَور دین  کا سارا سرمایہ شکوک وشبہات کے دائرہ میں آجائے گا۔ اِسی لیے دُشمنانِ دین شروع ہی سے صحابہث پر  زبانِ طعن دَراز کرتے آئے ہیں۔ مذہب ِشیعیت ورَافضیت کی تو بنیاد ہی بغض ِصحابہ پر ہے جبکہ گذشتہ صدی میں مستشرقین (اِسلامی علوم کے ماہر یہود ونصاریٰ) نے ایک تحریک کی شکل میں صحابہ ث کو مطعون کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے جس سے متاثر ہوکر بہت سے جدّت پسند مسلم اَربابِ قلم (جیسے مولانا اَبو الاعلیٰ مودودی اَور اُن کے ہم فکر لوگ) بھی جوش میں آگئے اَور اُنہوں نے صحابہ ث کے اِختلافی واقعات میں تاریخی محاکمہ کا بزعم خود دعوی کرکے اپنے قلم کی جولانی سے صحابہ ث کی عظمت کو تار تار کرڈالا اَور ذرا بھی شرم محسوس نہ کی اَور آج تک اُن کے متبعین صحابہث کے خلاف ہفوات سے بھرپور اُن کی تصنیفات دَھڑلّے سے چھاپ رہے ہیں اَور  دعوی یہ ہے کہ ہم سے بڑا اِتحاد ِاُمت کا علم بردار کوئی نہیں ہے۔ 
ذرا سوچیے! کیا حضراتِ صحابہ ث کی عظمت وعزت کا پاس ولحاظ کیے بغیر اُمت میں اِتحاد کا تصور کیا جاسکتا ہے؟ اگر صحابہ ث (خواہ وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں) پر ہی اعتماد نہ رہے تو آخر اُمت میں  کون اِس قابل ہے جس پر اعتماد کیا جاسکے اَور پھر ہم ہوتے کون ہیں صحابہ ث کے اِختلافات میں فیصل بننے والے؟ ہم اپنے اعمال ہی کی دُرستگی کرلیں تو بڑی بات ہے، صحابہ ث جیسے جلیل القدر حضرات کے آپسی معاملات حل کرنے کا اپنے کو اہل سمجھنا خود فریبی نہیں تو اَور کیا ہے ؟
اِس لیے اُمت کے ہر فرد کو سمجھ لینا چاہیے کہ حضرات ِصحابہ ث ہمارے سرکے تاج ہیں اَور پوری اُمت کے لیے سرمایۂ اِفتخار ہیں۔ اِن کے علوم سے اُمت کا کوئی فرد کبھی بھی اَور کہیں بھی مستغنی نہیں ہوسکتا اَور  جو صحابہث سے کٹے گا وہ دین سے کٹ جائے گا اَللّٰہُمَّ احْفَظْنَا مِنْہُ۔
(ب)  بدعات سے اِجتناب  :
حضراتِ صحابہ ث کیونکہ دین کے سب سے بڑے عالم تھے اِس لیے قدرتی طور پر وہ ہر ایسی بات سے متنفر تھے جو دین کے برخلاف ہو اَور نبی اَکرم  ۖ سے ثابت نہ ہو، اِسی بناء پر دَورِ صحابہ بدعات سے بالکل خالی نظر آتا ہے اَور حضراتِ صحابہ ث کی زندگیاں سنت کے نور سے معمور اَور بدعات کی ظلمت سے پوری طرح محفوظ دِکھائی دیتی ہیں۔ دَر اصل حضراتِ صحابہ ثکے سامنے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے وہ اِرشادات
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرف آغاز 4 1
3 درس حديث 7 1
4 تلاوت روزے اپنی مرضی سے نہیں سنت کے مطابق رکھنے ہوتے ہیں : 8 3
5 لفظ ِ ''جوانی'' کے بجائے ''صحت'' فرمانے کی حکمت : 9 3
6 دُوسری نعمت ''فراغت '' : 10 3
7 دِلچسپی بھی آخرت بھی : 11 3
8 شوق و تفریح کا خیال فرمانا : 11 3
9 حضرت عائشہ کے ساتھ دَوڑ لگانا : 12 3
10 خوش طبعی فطری حق ہے : 12 3
11 علمی مضامین سلسلہ نمبر٤٦ 14 1
12 مرد کی دِیت کامل اَور عورت کی نصف ہو گی 14 11
13 اِس کی حکمت ؟ 14 11
14 مساوات : 16 11
15 تعامل نہیں بلکہ اِجماع : 20 11
16 روایات ِ ائمہ کرام : 20 11
17 اَقوال و فتاوٰی اَئمہ کرام : 24 11
18 اَنفَاسِ قدسیہ 27 1
19 قطب ِ عالم شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمدصاحب مدنی کی خصوصیات 27 1
20 صبر و تحمل ١ : 27 19
21 ایک واقعہ 33 19
22 قسط : ٢ ،آخری 35 1
23 ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں 35 22
24 (3) اَحادیث ِنبویہ سے ناواقفیت : 35 22
25 (الف) عورتوں کے لیے حالت ِحیض میں قرآن پڑھنے کاجواز 35 22
26 (ب) خون سے وضو ٹوٹنے پراَحناف کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے : 35 22
27 (ج) مردوعورت کی نماز میں فرق کرنا جائز نہیں : 37 22
28 سوادِ اَعظم کی راہ سے نمایاں اِنحراف 38 22
29 (الف) بِلاوضو قرآن چھونا جائز ہے : 38 22
30 (ب) خطبہ ٔجمعہ عربی زبان کے بجائے مقامی زبان میں ہوناچاہیے : 39 22
31 (ج) تین طلاق سے ایک ہی طلاق ہونی چاہیے : 40 22
32 (د) پوری دُنیامیں عیدایک دِن ہو : 43 22
33 قسط : ٣ پردہ کے اَحکام 46 1
34 پردہ کے ضروری ہونے کی عقلی و عرفی دَلیل : 46 33
35 پردہ کے ضروری ہونے کی لُغوی دَلیل : 47 33
36 پردہ کے ضروری ہونے کی تمدنی شرعی دَلیل : 47 33
37 پردہ کے ضروری ہونے کی معاشرتی دَلیل : 48 33
38 پردہ کے ضروری ہونے کی ایک اَور عقلی دَلیل : 48 33
39 قسط : ٣صحابہث کی زِندگی اَور ہمارا عمل 49 1
40 حضرات ِصحابہث کی قابلِ تقلید اِمتیازی صفات 49 39
41 (٢) علمی گیرائی : 49 39
42 (الف) تعلیمی حلقے : 49 39
43 صحابہ ث معیارِ حق ہیں : 50 39
44 (ب) بدعات سے اِجتناب : 51 39
45 بدعت کا سبب جہالت ہے یا شرارت : 54 39
46 موجودہ زمانہ کاحال : 55 39
47 ''بدعت'' دین کی توہین کا سبب ہے : 56 39
48 بدعات کا خاتمہ کیسے ہو؟ : 57 39
49 (ج) پیغمبر علیہ السلام پر وَالہانہ وَارفتگی : 58 39
50 دینی مسائل ( متفرق مسائل ) 60 1
51 دین سے پھرجانا : 60 50
52 وفیات 61 50
53 63 1
54 اَخبار الجامعہ 63 1
55 بقیہ : دینی مسائل 64 50
Flag Counter