ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
ہوں تو اِرشاد فرمایا کہ نہیں لَا اَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ اِس سے اَفضل کوئی نہیں ہے تَصُوْمُ یَوْمًا وَتُفْطِرُ یَوْمًا وَذٰلِکَ صِیَامُ نَبِیِّ اللّٰہِ دَاودَ یہ حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے تھے وہ اِسی طرح رکھا کرتے تھے اَور کَانَ لَا یَفِرُّ اِذَا لَاقٰی ١ اَوْکَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ ۔جب دُشمن سے مقابلہ ہوتا تھا تو جمتے بھی تھے مطلب یہ کہ یہ تمہاری صحت ِ جسمانی کے لیے بھی ضروری ہے مقابلہ جسمانی طور پر بھی طاقت ہو تو کروگے بالکل جان نہ رہے تو پھر کیسے کروگے؟ تو آقائے نامدار ۖ نے اُن کو روکا ہے حالانکہ وہ اپنے شباب ،جوانی کو کام میں لارہے تھے اِطاعت میں مگر اُس میں غلو تھا بہت زیادہ آگے بڑھ گئے تھے تو رسول اللہ ۖ نے اُنہیں منع فرما دیا کہ یہ نہیں،یہ فرمایا رات کو اگرجاگتے رہو گے تو نَفِہَتْ نَفْسُکْ وَغَارَتْ عَیْنُکْ آنکھیں بھی دھنس جائیں گی جان کمزور ہو جائی گی جسم کمزور ہو جائے گا وغیرہ ہدایات ۔تو اِنسان جوانی کو چاہے اِطاعت کے کام میں لے آئے اَور چاہے غفلت کے کام میں لے آئے۔ لفظ ِ ''جوانی'' کے بجائے ''صحت'' فرمانے کی حکمت : اَور ''شباب ''کا ذکر نہیں فرمایا (اِس) حدیث میں کیونکہ بہت سے ایسے ہیں جو جوان ہوتے ہیں مگر بیمار ہوتے ہیںاَور بہت سے ایسے ہیں جو بڑی عمر کے ہو جاتے ہیںصحت ہوتی ہے توصحت کا ذکر ہے اِس میں کہ صحت جب تک میسر ہے اَور بہت سے ایسے ملیں گے لوگ کہ جو جوانی بھر بیمار رہے اَور آخر میں ٹھیک ہو گئے اُن کی وہ بیماری جاتی رہی۔ تو ''صحت ''کا اِرشاد فرمایا یہ ایسی چیز ہے کہ یہ بچپن میں بھی ہو سکتی ہے جوانی میں بھی ہو سکتی ہے اَور اُس سے آگے کے حصوں میں بھی سب میں ہو سکتی ہے تو یہ جس کو میسر ہے اُس کو وہ کس چیز میں صرف کرے تو اُسے چاہیے کہ وہ خداوند ِ قدوس کی اِطاعت میں رہے تو پھر نقصان نہیں ورنہ اِس دھوکے میں بہت سے لوگ نقصان میں رہ جاتے ہیں وہ موقع گزرجاتا ہے اَور بڑھاپے میں ہمت نہیں ہوتی۔ جوانی تو غفلت میں گزر جاتی ہے طاقت صحت غفلت میں گزرگئی اَور بعد میں جب بڑھاپا آیا ضعف آیا اُس وقت خداکی یاد کی طرف لگتا ہے ذکر اِلٰہی کی طرف لگتا ہے چاہتا ہے کہ کرلے کچھ زیادہ کام اُس وقت اُس میں جان نہیں رہتی تو وہ خسارے میں ١ بخاری شریف کتاب الصوم رقم الحدیث ١٩٧٩