ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
قسط : ٣صحابہث کی زِندگی اَور ہمارا عمل ( حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری،اِنڈیا ) حضرات ِصحابہث کی قابلِ تقلید اِمتیازی صفات (٢) علمی گیرائی : حضراتِ صحابہ ث علم دین حاصل کرنے کے نہایت شوقین تھے، اُن میں کا ہر شخص اِس فکر میں رہتا تھا کہ کس طرح اُسے دین کی معلومات حاصل ہوں اَور کیسے وہ مسائل کے اَحکامات سے واقف ہوں؟ چنانچہ وہ اِسی غرض کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا تھا۔ اِس مبارک شوق کے اَثرات بالخصوص درجِ ذیل تین صورتوں میں ظاہر ہوتے تھے۔ (الف) تعلیمی حلقے : دَورِ صحابہ میں جابجا تعلیمی حلقے لگا کرتے تھے اَور عام طور پر مساجد میں نماز باجماعت کے ساتھ ساتھ علمِ دین کی نشر واِشاعت کا بھی نظم تھا اَور فارغ اَوقات کو علمی بحث ومباحثہ اَور مذاکرہ میں گزارنے کا اہتمام کیا جاتا تھا حتی کہ سفرِ جہاد میں بھی یہ سلسلہ جاری رہتا۔ حطان بن عبد اللہ رقاشی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ صحابیٔ رسول سیّدنا حضرت اَبو موسی اَشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ دَجلہ کے ساحل پر قیام پذیر تھے، نماز ِظہر کا وقت آیا اَذان ہوئی اَور باجماعت نماز اَدا کی گئی پھر لوگ دینی تعلیم کے لیے حلقے بناکر بیٹھ گئے اَور عصر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ (حیاة الصحابہ ج ١ ص ٧٣٣) دَورِ نبوت میں حضرات صحابہ ث کی کوشش رہتی کہ پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کی کسی رُوحانی مجلس میں حاضری سے محرومی نہ رہے تاکہ زیادہ سے زیادہ دینی اِستفادہ کا موقع مل سکے اَور اگر کسی شخص کو ذاتی مشاغل کی وجہ سے ہر روز حاضری کا موقع نہ ملتا تو وہ دُوسرے شخص کے ساتھ باری باری مجلسِ نبوت میں حاضری کا معمول بنالیتا تاکہ ہر مجلس کی اہم دینی باتوں سے واقفیت حاصل ہوتی رہے چنانچہ اَمیر المؤمنین سیّدنا عمر بن خطاب نے