Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011

اكستان

10 - 65
رہا نقصان میں رہا اگرچہ اِس نقصان کی تلافی بھی ہوجاتی ہے حدیث شریف میں بتائی گئی ہے کہ آدمی جب پچھتاتا ہے یا اِستغفار کرتا ہے تو وہ اُس کے لیے کفارہ ہوجاتی ہے لیکن یہ جب ہے کہ جب ہوش آجائے اُسے۔
مگر ہوتا تو یہ ہے جس حالت میں اُس نے جوانی کا یہ دَور گزارا اُس حالت کے بعد پھر سنبھلنے کا دَور کم آتا ہے اَور اُس کی بہت سی شکلیں نظر آجائیں گی آپ کو کہ ایک آدمی وہ ہے جو وقت نکال لیتا ہے خدا کے لیے وہ تو ٹھیک ہے عادت ہوگئی اُس کو اَور بعض ایسے ہوتے ہیں جو وقت نہیں نکالتے بعض بچوں میں، اِس میں، اُس میں لگے رہتے ہیں زیادہ دِل اُدھر رہتا ہے تو ایسے لوگوں کو جب اُن کے بچوں کے بچے ہوجاتے ہیں تو پھر اُن کی فکر لگی رہتی ہے اُن کی وجہ سے بے سکون رہتے ہیں اَولاد کی اَولاد اَور اَولاد دَر اَولاد اُس تک کا فکر اُنہیں سوار رہتا ہے اَور ذہن میں وہی چیز چھائی رہتی ہے کیونکہ اُنہوں نے اپنا رُخ بدلا نہیں، جو تھا اُن کا رُخ اُسی پر چلتے رہے اَور اُس تعلق کو بڑھاتے چلے گئے اَور بڑھاپے میں وہ تعلق تنگ کرتا ہے کیونکہ آدمی میں جان نہیں رہتی برداشت کی، صدمات کی ،جھٹکوں کی تو ذرا سی بھی تکلیف کسی کو ہوتی ہے تو وہ بے چین ہوجاتا ہے اَور اُسی طرف ذہن لگا رہ جاتا ہے۔
 تو اِنسان صحت کے دَوران اگر طبیعت اپنی ٹھیک کرلے رُخ ٹھیک بٹھالے تو وہ بہت بہتر ہے (کیونکہ وہ بچ گیا اَور ) اُس نے نقصان نہیں اُٹھایا ورنہ تو  مَغْبُوْن فِیْہِ  اُس میں اُس نے نقصان اُٹھایا بہت زیادہ اَور خدانخواستہ اگر توبہ اَور رُجوع الی اللہ کی توفیق نہ ہی ہو تو پھر تو گویا بہت ہی بڑا نقصان ہے کہ جو موقع تلافی کا تھا معاذ اللہ وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہے اَور تلافی نہ کرسکا۔
دُوسری نعمت ''فراغت ''  : 
دُوسری چیز ہے'' فراغت'' اَور یہ فراغت ایسی چیز ہے کہ اِنسان تھوڑا سا کام کرتا ہے پیسے آجاتے ہیں ضرورت کے مطابق یا جتنا جی چاہتا ہے اُتنے آجاتے ہیں کام تھوڑا ہے وقت باقی ہے تو وہ وقت گزارتا ہے اِدھر اُدھر کے کاموں میں اہم کاموں کو چھوڑکر وقت اِدھر اُدھر گزارتا ہے فراغت ہے نکل گیا دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں میں رہا، غفلت کی جگہوںمیں رہا ،فلم دیکھتا رہا اِس طرح کی چیزوں میں وہ وقت گزاررہا ہے جو بچتا ہے اُس کو، یہ غلط ہے آقائے نامدار  ۖ  فرماتے ہیں کہ یہ جو فراغت اِسے میسر ہے، اِس کو اِس طرح ضائع نہ کرنا چاہیے اِسے آخرت کے کام میں لائے۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرف آغاز 4 1
3 درس حديث 7 1
4 تلاوت روزے اپنی مرضی سے نہیں سنت کے مطابق رکھنے ہوتے ہیں : 8 3
5 لفظ ِ ''جوانی'' کے بجائے ''صحت'' فرمانے کی حکمت : 9 3
6 دُوسری نعمت ''فراغت '' : 10 3
7 دِلچسپی بھی آخرت بھی : 11 3
8 شوق و تفریح کا خیال فرمانا : 11 3
9 حضرت عائشہ کے ساتھ دَوڑ لگانا : 12 3
10 خوش طبعی فطری حق ہے : 12 3
11 علمی مضامین سلسلہ نمبر٤٦ 14 1
12 مرد کی دِیت کامل اَور عورت کی نصف ہو گی 14 11
13 اِس کی حکمت ؟ 14 11
14 مساوات : 16 11
15 تعامل نہیں بلکہ اِجماع : 20 11
16 روایات ِ ائمہ کرام : 20 11
17 اَقوال و فتاوٰی اَئمہ کرام : 24 11
18 اَنفَاسِ قدسیہ 27 1
19 قطب ِ عالم شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمدصاحب مدنی کی خصوصیات 27 1
20 صبر و تحمل ١ : 27 19
21 ایک واقعہ 33 19
22 قسط : ٢ ،آخری 35 1
23 ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں 35 22
24 (3) اَحادیث ِنبویہ سے ناواقفیت : 35 22
25 (الف) عورتوں کے لیے حالت ِحیض میں قرآن پڑھنے کاجواز 35 22
26 (ب) خون سے وضو ٹوٹنے پراَحناف کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے : 35 22
27 (ج) مردوعورت کی نماز میں فرق کرنا جائز نہیں : 37 22
28 سوادِ اَعظم کی راہ سے نمایاں اِنحراف 38 22
29 (الف) بِلاوضو قرآن چھونا جائز ہے : 38 22
30 (ب) خطبہ ٔجمعہ عربی زبان کے بجائے مقامی زبان میں ہوناچاہیے : 39 22
31 (ج) تین طلاق سے ایک ہی طلاق ہونی چاہیے : 40 22
32 (د) پوری دُنیامیں عیدایک دِن ہو : 43 22
33 قسط : ٣ پردہ کے اَحکام 46 1
34 پردہ کے ضروری ہونے کی عقلی و عرفی دَلیل : 46 33
35 پردہ کے ضروری ہونے کی لُغوی دَلیل : 47 33
36 پردہ کے ضروری ہونے کی تمدنی شرعی دَلیل : 47 33
37 پردہ کے ضروری ہونے کی معاشرتی دَلیل : 48 33
38 پردہ کے ضروری ہونے کی ایک اَور عقلی دَلیل : 48 33
39 قسط : ٣صحابہث کی زِندگی اَور ہمارا عمل 49 1
40 حضرات ِصحابہث کی قابلِ تقلید اِمتیازی صفات 49 39
41 (٢) علمی گیرائی : 49 39
42 (الف) تعلیمی حلقے : 49 39
43 صحابہ ث معیارِ حق ہیں : 50 39
44 (ب) بدعات سے اِجتناب : 51 39
45 بدعت کا سبب جہالت ہے یا شرارت : 54 39
46 موجودہ زمانہ کاحال : 55 39
47 ''بدعت'' دین کی توہین کا سبب ہے : 56 39
48 بدعات کا خاتمہ کیسے ہو؟ : 57 39
49 (ج) پیغمبر علیہ السلام پر وَالہانہ وَارفتگی : 58 39
50 دینی مسائل ( متفرق مسائل ) 60 1
51 دین سے پھرجانا : 60 50
52 وفیات 61 50
53 63 1
54 اَخبار الجامعہ 63 1
55 بقیہ : دینی مسائل 64 50
Flag Counter