ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
رہا نقصان میں رہا اگرچہ اِس نقصان کی تلافی بھی ہوجاتی ہے حدیث شریف میں بتائی گئی ہے کہ آدمی جب پچھتاتا ہے یا اِستغفار کرتا ہے تو وہ اُس کے لیے کفارہ ہوجاتی ہے لیکن یہ جب ہے کہ جب ہوش آجائے اُسے۔ مگر ہوتا تو یہ ہے جس حالت میں اُس نے جوانی کا یہ دَور گزارا اُس حالت کے بعد پھر سنبھلنے کا دَور کم آتا ہے اَور اُس کی بہت سی شکلیں نظر آجائیں گی آپ کو کہ ایک آدمی وہ ہے جو وقت نکال لیتا ہے خدا کے لیے وہ تو ٹھیک ہے عادت ہوگئی اُس کو اَور بعض ایسے ہوتے ہیں جو وقت نہیں نکالتے بعض بچوں میں، اِس میں، اُس میں لگے رہتے ہیں زیادہ دِل اُدھر رہتا ہے تو ایسے لوگوں کو جب اُن کے بچوں کے بچے ہوجاتے ہیں تو پھر اُن کی فکر لگی رہتی ہے اُن کی وجہ سے بے سکون رہتے ہیں اَولاد کی اَولاد اَور اَولاد دَر اَولاد اُس تک کا فکر اُنہیں سوار رہتا ہے اَور ذہن میں وہی چیز چھائی رہتی ہے کیونکہ اُنہوں نے اپنا رُخ بدلا نہیں، جو تھا اُن کا رُخ اُسی پر چلتے رہے اَور اُس تعلق کو بڑھاتے چلے گئے اَور بڑھاپے میں وہ تعلق تنگ کرتا ہے کیونکہ آدمی میں جان نہیں رہتی برداشت کی، صدمات کی ،جھٹکوں کی تو ذرا سی بھی تکلیف کسی کو ہوتی ہے تو وہ بے چین ہوجاتا ہے اَور اُسی طرف ذہن لگا رہ جاتا ہے۔ تو اِنسان صحت کے دَوران اگر طبیعت اپنی ٹھیک کرلے رُخ ٹھیک بٹھالے تو وہ بہت بہتر ہے (کیونکہ وہ بچ گیا اَور ) اُس نے نقصان نہیں اُٹھایا ورنہ تو مَغْبُوْن فِیْہِ اُس میں اُس نے نقصان اُٹھایا بہت زیادہ اَور خدانخواستہ اگر توبہ اَور رُجوع الی اللہ کی توفیق نہ ہی ہو تو پھر تو گویا بہت ہی بڑا نقصان ہے کہ جو موقع تلافی کا تھا معاذ اللہ وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہے اَور تلافی نہ کرسکا۔ دُوسری نعمت ''فراغت '' : دُوسری چیز ہے'' فراغت'' اَور یہ فراغت ایسی چیز ہے کہ اِنسان تھوڑا سا کام کرتا ہے پیسے آجاتے ہیں ضرورت کے مطابق یا جتنا جی چاہتا ہے اُتنے آجاتے ہیں کام تھوڑا ہے وقت باقی ہے تو وہ وقت گزارتا ہے اِدھر اُدھر کے کاموں میں اہم کاموں کو چھوڑکر وقت اِدھر اُدھر گزارتا ہے فراغت ہے نکل گیا دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں میں رہا، غفلت کی جگہوںمیں رہا ،فلم دیکھتا رہا اِس طرح کی چیزوں میں وہ وقت گزاررہا ہے جو بچتا ہے اُس کو، یہ غلط ہے آقائے نامدار ۖ فرماتے ہیں کہ یہ جو فراغت اِسے میسر ہے، اِس کو اِس طرح ضائع نہ کرنا چاہیے اِسے آخرت کے کام میں لائے۔