ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
اُسے دَردِ سر بھی نہیں ہوا اَور ایسے لوگ ہیں کہ جو یہ کہتے ہیں کہ دَردِ سر کیا چیز ہوتی ہے کیسے ہوتا ہے کبھی چکر ہی نہیں آئے اُنہیں پتہ ہی نہیں کہ چکر کیسے آتے ہیں تو حق تعالیٰ کی یہ نعمتیں ہیں جو اُس نے بخش رکھی ہیں اُس کو صحت دے دی اِتنی کہ وہ دَورانِ راس نہیں جانتا کہ کیا ہوتا ہے اُسے صحت دے دی اِتنی کہ جو مَا تَیَسَّرْ وہ کھالے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اِس میں ایک کیفیت ہوتی ہے اِنسان پر مستی کی غفلت کی وہ خدا کی طرف نہیں آتا وہ کہتا ہے سب کچھ بس خود بخود ہے یا میں ہی ہوں ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف توجہ سے غفلت ہوتی ہے تو حق اِس (صحت) کا کیا ہے ؟حق یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں لگائی جائے اُس کی اِطاعت میں یہ طاقت صرف کی جائے اَور صحابۂ کرام میں یہ ذوق عام تھا۔ تلاوت روزے اپنی مرضی سے نہیں سنت کے مطابق رکھنے ہوتے ہیں : حضرت عبد اللہ ابن ِعمرو ابن العاص شادی ہونے کے بعد بھی رات کو نہیں سوتے تھے پڑھتے رہتے تھے قرآنِ پاک جتنا نازل ہوا تھا وہ اُنہیں یاد تھا سارا ہی پڑھ لیتے تھے اَور دِن میں روزے سے رہتے تھے اَور ضعف یا کمزوری روزے سے بالکل نہیں محسوس کرتے تھے نہ رات کے جاگنے سے کوئی فرق محسوس کرتے تھے حتّٰی کہ اُن کے والد ِ ماجد حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ۖ سے حالت بتلائی کہ اِس کی شادی ہوگئی ہے اَور یہ اِس طرح سے رہتا ہے بیوی کے حقوق نہیں اَدا کرتا اُس میں غفلت ہے، اُس سے اَخلاق سے بات کرنی یا وقت دینا اُس کو باتوں کے لیے وغیرہ وغیرہ وہ کچھ نہیں کرتا تو رسول اللہ ۖ نے اُن کو تمام چیزوں سے روکا ہے اَور قرآنِ پاک کو فرمایا کہ جو یاد ہے اُسے تیس حصوں میں بانٹ لو مہینہ بھر میں، اِنہوں نے اِصرار کیا اِتنا اِصرار کیا کہ رسول اللہ ۖ نے آخر کار یہ اِجازت دے دی کہ چلو تین دن میں پڑھ لیا کرو، روزے منع فرمادِیے یہ فرمادیا کہ بس تَصُوْمُ مِنْ کُلِّ شَھْرٍ ثَلَاثًا اَور اَلْحَسَنَةُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا ہر مہینہ میں تین دِن روزے رکھ لیا کرو اَور نیکی جو ہے دس گُنی ہوتی ہے فَذٰلِکَ شَھْر کُلُّہ سارے مہینے کا تمہیں ثواب مل جائے گا۔ اُنہوں نے اِصرار کیا اِتنا اِصرار کیا کہ رسول اللہ ۖ نے پھر فرمایا کہ اَچھا تم ایک دِن روزہ رکھو اَور ایک دِن نہ رکھا کرو تو اُنہوں نے کہا اِنِّیْ اُطِیْقُ اَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ میں اِس سے زیادہ اَفضل کام کرسکتا