ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
اپنے پڑوسی اَنصاری صحابی کے ساتھ یہی معمول بنا رکھا تھا۔(بخاری شریف ج ١ ص ١٩) پھر صحابہ ث کو علم کی اِشاعت کا ایسا شوق تھا کہ جو صحابی دُنیا کے جس خطہ میں قیام پذیر ہوگیا وہاں سے علم کے چشمے جاری ہوگئے۔ ایک ایک صحابی سے ہزارو ںہزار اَفراد نے فیض اُٹھایا اَور اُن کی فیض رسانی سے قرآن وسنت کا صحیح علم اَطراف واَکناف ِعالم میں پھیل گیا اَور نہ صرف حجاز ِمقدس بلکہ شام وعراق وغیرہ میں بھی علم ِدین کے عظیم الشان مراکز قائم ہوگئے۔ حضراتِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی اعلیٰ علمی صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے بعد میں آنے والے اَساطین ِاُمت نے یہ طے کیا کہ جس مسئلہ میں حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے متفق ہو گئی ہو اُس سے عدول کرنا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے اَور جو ایسا کرے گا وہ یقینا گمراہ قرار پائے گا اَور جس مسئلہ میں صحابہث کی آراء اَخیر تک مختلف رہی ہیں اَب اُس اِختلاف سے ہٹ کر اِس مسئلہ میں کسی تیسرے مؤقف کو اَپنانا درست نہ ہوگا۔ (توضیح وتلویح ٣٤٩، خلاصة التحقیق ١٧) صحابہ ث معیارِ حق ہیں : نیز جمہور اُمت نے حضرات ِصحابہ ث کو پوری اُمت کے ''اَساتذہ'' کے درجہ میں رکھ کر اُن کی عظمت کو دین کی عظمت قرار دیا اَور اُن کو ''معیارِ حق'' تسلیم کیا ہے اَور جو لوگ صحابہ ث کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں اُن پر سخت نکیر کی ہے۔ مشہور محدث اِمام اَبو زرعہ رَازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ''جب تم کسی شخص کو صحابہث کی شان میں نارَوا کلمات کہتے ہوئے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ شخص زندیق (بد دین) ہے اَور اِس کی وجہ یہ ہے کہ رسول برحق ہیں، قرآن کریم برحق ہے، قرآن وسنت کی تعلیمات برحق ہیں اَور یہ سب چیزیں ہمارے پاس حضرات ِصحابہ کے واسطے سے پہنچی ہیں، اَب یہ زندیق لوگ چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے اَساتذہ کو مطعون کرکے قرآن وسنت کو باطل قرار دے سکیں تو اِس شرارت کا علاج یہ ہے کہ صحابہ کو مجروح کرنے کے بجائے اِن شرارت پسندوں ہی کو مجروح قرار دیا جائے۔'' (مقدمة الاصابہ فی تمییز الصحابہ شیخ عادل احمد عبدالموجود وغیرہ ٢٢١) اِس لیے صحابہث کی علمیت کو تسلیم کرنا اَور اُن کے نقش ِقدم کو اِختیار کرنا دین کی بقا ء کے لیے ضروری