ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
دورۂ حدیث شریف میں شریک تھے کسی گستاخ نے ایک رُقعہ بھیجا جس کا جواب اِمامِ عصر (حضرت شیخ الاسلام) نے دُوسری نشست میں نہایت نرم اَور شائستگی سے دیا اَور فرمایا کسی دوست نے مجھ کو رُقعہ لکھا ہے کہ تو اپنے باپ سے نہیں ہے۔ تمام مجلس میں ہیجان برپا ہو گیا اَور ہر طالب ِعلم غیض و غضب میں بھر گیا آپ نے فرمایا خبردار کسی کو غصہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے میرا حق ہے کہ میں اِس کی تسلی کر دُوں، فرمایا: میں ضلع فیصل آباد قصبہ ٹانڈہ محلہ الہ دَاد پور کا رہنے والا ہوں اِس وقت بھی میرے والد کے نکاح کے گواہ زندہ ہیں۔ خط بھیج کر یا جا کر سمجھ لیا جائے....... الخ۔''( مکتوبات شیخ الاسلام ص ٤٢) ملاحظہ فرمائیے حد ہے تحمل و برداشت کی، خدا کی قسم اِس قسم کی نظیریں صحابہ کرام اَور اَصحاب خیر القرون کے علاوہ اَور لوگوں کے یہاں مِلنی نہایت دُشوار ہیں۔ جس وقت آپ آخری حج کے لیے تشریف لائے تو ایک دِن بعد ظہر کے مہمان خانہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مظفر نگر سے ایک ڈاکٹر صاحب تشریف لائے ، جب کافی دیر اُنہیں بیٹھے ہوئے ہوگئی تو اُنہوں نے اپنی طرف حضرت کو متوجہ کیا چنانچہ حضرت نے فورًا ہی داڑھی کے سلسلے میں ٹوکا اَور نصیحت فرمائی (حضرت کی عادت تھی کہ جب کوئی داڑھی منڈاآپ سے مصافحہ کرتا یا کوئی مقصد ظاہر کرتا تب ہی ٹوکتے تھے، اُس نے نہایت اُونچی آواز سے کہا : مولانا ! آپ کو کیا معلوم کہ ہم کو کس قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے بہت سے مواقع ایسے آتے ہیں اَور آئے ہیں کہ اِس داڑھی کے نہ ہونے سے جان بچی ہے، بس یہ کہہ کر چل دیا، حضرت نے فرمایا کہاں جاتے ہیں کھجوریں اَور آب ِزمزم تو لے جائیے اَور فورًا ہی باصرار ہر دو چیز عنایت فرمائیں۔ ملاحظہ فرمائیے کوئی معمولی ظرف کا اِنسان ہوتاتو فورًا ہی جوتے مار کر مکان سے نکلوا دیتا۔ حضرت مولانا اَبوالحسن علی صاحب ندوی نے مکتوبات جلد ثانی کے مقدمہ میں ایک واقعہ تحریر فرمایا ہے : ''(حضرت نے )جمعہ کی نماز ایک جامع مسجد میں پڑھی۔ خطیب صاحب حضرات ِدیوبند کی تکفیر کرنے والوں میں تھے۔ اُنہوں نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر بعض بزرگوں کے متعلق بہت کچھ کہا مولانا سنتوں سے فارغ ہو کر خاموش بیٹھے تھے نماز ہوئی خاموش تشریف لے آئے۔ سفر کے آخر تک کبھی بھول کر بھی خطیب صاحب کا تذکرہ نہیں کیا۔''