ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
حضرت شیخ الاسلام سے سید پور کے واقعہ کے وقت بعض لوگوں نے اِجازت طلب کی کہ جس کو حضرت مولانا سیّد محمد میاں صاحب نے اپنے رسالہ حیات شیخ الاسلام میں اِس طرح بیان کیا ہے : ''حملوں اَور شب وشتم کے وقت حضرت شیخ کی کیا حالت تھی؟ مولانا ریاض الدین صاحب فرماتے ہیں کہ چہرہ پر قطعًا خوف وہراس نہ تھا اَور مدنی صاحب رحمة اللہ علیہ اکثر مراقبہ کی حالت میں ہوجاتے تھے، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حضرت ممدوح سے دیگر اَشخاص نے تحریری طور پر اِجازت طلب کی کہ ہم غنڈوں کے قلع قمع کے لیے حاضر ہیں مگر مولانا رحمة اللہ علیہ نے بلوہ کے اَندیشہ اَور اپنے اعتماد علی اللہ کی بنا پر اِجازت نہیں دی۔(حیات شیخ الاسلام ص ٢٣٥) ملاحظہ فرمائیے حضرت کے واقعات، حالات اَور قول و فعل کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اَور آنحضرت ۖ کے حالات و واقعات سے کس قدر مشابہت ہے، میرا منشا اِس سے یہ نہیں کہ (نعوذ باللہ منہا) کہیں آپ صحابہ کرام کے مرتبے کے تھے توبہ توبہ! اُمت کا بڑے سے بڑا وَلی اَور قطب بھی صحابہ کرام کے گرد کو نہیں پہنچ سکتا۔ ہاں کسی ولی اللہ کا صحابہ کرام اَور آنحضرت ۖ کی خوبو، اَخلاق وعادات اِختیار کرنا پھر من جانب اللہ اِس کے لیے اِس قسم کے حالات اَور واقعات مہیا ہوجانا کہ جس قسم کے حالات اَور واقعات سے صحابہ کرام اَور حضور ۖ کو سابقہ پڑ چکا ہے، واقعی اِس ولی اللہ اَور بندۂ خدا کے علوِّ مراتب پر ایک کھلی دَلیل ہے کہ جس کو کسی دُوسری دلیل کی اِحتیاج نہیں۔ اِیذائیں اَور مصیبتیں وہی ہستی برداشت کر سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں مدہوش ہو۔ اِنَّ الْمَحَبَّةَ لِلرَّحْمٰنِ سُکْرِیْ ھَلْ رَأَیْتَ الْمُحِبَّ غَیْرَ سُکْرَانِ '' اللہ تعالیٰ کی محبت نے مجھے مدہوش کردیا ہے اَور کوئی محب بغیر مدہوشی کے نہیں دیکھا گیا۔ '' اِس کا نام ہے صبرو تحمل۔ اَندازہ لگائیے کہ حضرت کتنے اُونچے مقام کے اِنسان تھے، علاوہ اَزیں چند واقعات اَور ملاحظہ فرمائیے مولانا نجم الدین صاحب اِصلاحی مقدمہ مکتوبات شیخ الاسلام میں تحریر فرماتے ہیں : ''مولانا احمد علی صاحب لاہوری( رحمہ اللہ ) کے صاحبزادے مولوی حبیب اللہ صاحب