ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
نے کِتَابُ الْحُجَّہْ کا پورا باب نقل فرمایا ہے۔ پھر اہلِ مدینہ کے مسلک پر اُن کی روایت پر ھِیَ السُّنَّةُ کے جملہ پر بحث فرمائی ہے۔ اپنا تردد ظاہر فرمایا ہے پھر آخر میں یہ رائے دی ہے کہ اہلِ مدینہ کی دلیل حضرت زید سے اِتنے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی جتنی کہ اہلِ عراق کی دلیل حضرت علی سے ،اِس لیے اُنہوںنے اِسی مسلکِ حنفی کو اِختیار فرمالیا وَلَا یَثْبُتُ عَنْ زَیْدٍ کَثُبُوْتِہ عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ (کتاب الام ص ٣١٢ ج ٧ ) غرض صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دَور میں یہ مسئلہ کہ مرد کی نصف دیت سے زیادہ عورت کی دیت نہیں ہو سکتی ایسا معروف اَور مسلَّم تھا کہ اِس پرپوری سلطنت اِسلامیہ میں کسی صحابی نے کوئی اعتراض نہیں کیا نہ اُس کے ماننے میں تامل کیا جیسے کہ اِنہیں سب ہی کو یہ مسئلہ پہلے سے معلوم ہی تھا۔ ٭ مُسند اِمام شافعی میں ایک جگہ مدنی، مکی اَور شامی ائمہ تابعین کا بیان ہے کہ اُنہوں نے صحابہ کرام کا یہی مسلک پایا ہے : '' اَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ اَیُّوْبَ بْنِ مُوْسٰی عَنِ ابْنِ شَھَابٍ وَعَنْ مَّکْحُوْلٍ وَعَطَائٍ قَالُوْا اَدْرَکْنَا النَّاسَ عَلٰی اَنَّ دِیَةَ الْحُرِّ الْمُسْلِمِ عَلٰی عَہْدِ النَّبِیِّ ۖ ........اَلْحَدِیْثُ۔'' ''یعنی اِبن ِشھاب مدنی مکحول شامی اَور عطائ مکی رحمہم اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے سے پہلے حضرات کو یہی فرماتے سنا ہے کہ مسلمان آزاد مرد کی دیت جناب رسول اللہ ۖ کے زمانہ میں............۔'' اِس حدیث میں مرد وعورت کی دیت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سِکَّہ سے معین فرمائی ہے اَور عورت کی دیت مرد سے نصف مقر رکی ہے اَور محمد بن نصر مروزی نے یہی مضمون سند صحیح سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے فرمان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل لکھ کر بھیجا۔( کتاب السنة لا بن نصر ص ٦٣) ٭ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کی دیت مرد سے نصف اَدا کرنے کا فیصلہ فرمایا اَور چونکہ اِسے حرم شریف میں قتل کیا گیا تھا(یہ عورت ایک مجمع میں دَب گئی تھیں) اِس لیے تغلیظ (دیت شدید کرنے) کے لیے ایک ثلث اَور بڑھا کر آٹھ ہزار دِرہم اَدا کرائی اِس کی سند یہ ہے :