ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
ضروری ٹھہرے گا۔ اَور اگر نہیں تو کیوں؟ آپ کس دلیل سے کہیں گے کہ سپاہی کونہ مارا جائے جبکہ آپ کے بقول ''اَلنَّفْسَ بِالنَّفْسِ'' کا حکم عام ہے۔ اپنے بیان کردہ قاعدہ اَور دَلیل کے باجود آپ بھی ایسا کر نہیں سکتے لامحالہ اِس عموم میں تخصیص و اِستثناء لائیں گے لہٰذا یہ دعوی کہ اَلنَّفْسَ بِالنَّفْسِ بالکل عموم پر محمول ہے خود غلط ہوجائے گا۔ ٭ قرآن پاک تفسیر اَور حدیث کی تشریح میں اپنی رائے کا اِستعمال بھی قواعد ہی کے تحت ہو سکتاہے، بے قاعدہ اَور جو دِل میں آئے وہ تفسیر یاتشریح نہیں کی جاسکتی۔ ایک قاعدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام میں جو علمائ، مفتی اَور قاضی حضرات تھے اُن کی طرف سب سے پہلے رُجوع کرنا لازمی ہے کیونکہ اُن کے سامنے قرآن پاک اُترا وہ اِس کی سب سے اہم غرض کے سب سے زیادہ واقف تھے اَور ناسخ و منسوخ کے بھی ۔اگر ہم اِس قاعدے کی پابندی نہ کریں تو بڑی بڑی اُلجھنوں میں پڑجائیں گے مثلاً قرآنِ پاک میں حکم ہے وَاَشْھِدُوْا اِذَا تَبَایَعْتُمْ ( پارہ ٣ سُورہ بقرہ آیت ٢٨٢ ) جب خریدوفروخت کرو تو گواہ بناؤ اگرہر وقت اِس پر عمل کیاجائے تو دُشواری ہوگی اِس کی تفسیر صحابہ کرام نے یہ نہیں سمجھی بلکہ اِس اَمر خاص سے بھی اِستثناء ثابت ہے۔ اِبراہیم نخعی نے فرمایا کہ مَنْ رَاحَ اِلَی الْجُمُعَةِ فَالْیَغْتَسِلْ (جو جمعہ کے لیے جائے تو اُس پر غسل واجب ہے) میں حکم وجوب کے لیے نہیں ہے جیسے آیت مذکورہ بالا میں( بخاری ص ١٤١ ج ١) حالانکہ ''اَمر'' خاص کی قسم میں داخل ہے عام میں نہیں۔ اِس لیے لفظ عام کے عموم سے اِستدلال ہی کو سرے سے ضعیف قرار دیا گیا ہے جیسے ''اَلنَّفْسَ بِالنَّفْسِ'' کے عموم سے آج اِستدلال کیا جا رہا ہے ۔ ٭ ایک اِستدلال اَلْمُسْلِمُوْنَ تَتَکَافَؤُ دِمَائُھُمْ (مسلمانوں کے خون برابر ہیں) سے کیا جارہا ہے اِور اِس کے حل کے لیے لغت کے صفحات نقل کیے جا رہے ہیں حالانکہ اِس حدیث کے راوی حضرت علی ہیں اَور وہ عورت کی نصف دیت کے قائل ہیں۔ یہ حدیث اُن کے پاس صحیفہ میں تھی اَور یہ صحیفہ حضرت عمروبن حزم کے نام والا نامہ سے بہت زیادہ اہم تھا کیونکہ یہ پہلے تو اَبو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس اُن کی تلوار میں رہا پھر حضرت عمر کے پاس رہا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہم کے پاس رہا جیسے ترمذی شریف میں ہے۔ اَور اِسی سے حنفی مسلک میں مسائل زکوة لیے گئے ہیں۔ اِس صحیفہ کے بارے میں حضرت علی کے برابر