ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
تنبیہ : لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ صورت صرف اُسی وقت ہو سکتی ہے کہ مسجدبنانے کے وقت بنانے والے پہلے ہی اُوپر کے مکان یانیچے کے تہہ خانہ یا دُکان وغیرہ کو مسجد سے جدا قرا دے کر اُس کو کرایہ پر دینے یا اَور اُس کو مسجد پر وقف کرنے کی نیت کر لی ہو ورنہ اگر مسجد بنادی گئی تو پھر بعد میں اُس کے نیچے کوئی دُکان یا اُوپر کرایہ کے لیے مکان بنانا ہر گز جائز نہیں کیونکہ مسجد کے اُوپر آسمان تک اَور نیچے زمین کی اِنتہا تک سب کا سب قیامت تک کے لیے مسجدہے۔ اِس میں کسی حصہ کو اَب مسجدسے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ مسئلہ : مسجد کے کسی حصہ کو مسجد سے علیحدہ کر کے کوئی اَور چیز بنانا ہر گز جائز نہیں اگرچہ مصالح مسجد کے متعلق ہوں مثلاًاِمام کے لیے مکان بنانایامسجدکے لیے وضو خانہ یا غسل خانہ بنانا۔ وہ جگہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی۔ اگر کسی نے بنادی تو واجب ہے کہ اِس کو منہدم کر کے اِس جگہ کو مسجد میں شامل کردے۔ اَلبتہ اگر مسجد بنانے کے وقت اَوّل ہی سے کوئی جگہ مصالح مسجد کے لیے علیحدہ کرلی جائے مثلاً مسجد کے اُوپر یا نیچے اِمام کے لیے مکان یا کرایہ کی دُکانیں بنادی جائیں تو جائز ہے۔ لیکن جب اَوّل تعمیر کے وقت مسجد بن گئی تو پھر اِس کانکالنامسجدسے جائز نہیں۔ اَوراگریہ بھی کہے کہ میری نیت پہلے ہی سے اِس جگہ کو علیحدہ کرنے کی تھی تب بھی اِس کی بات مانی نہیں جائے گی۔ مسئلہ : مسجد کی دیوارپر اپنی مملوکہ دُکان یا مکان کی چھت کی کڑیاں یاگاڈررکھنا درست نہیں۔ مسئلہ : عام راستہ اَورگزرگاہ ہو تواُس کاکچھ حصہ مسجد میں شامل کرناتین شرطوں سے جائز ہے :(ا) وہ راستہ حکومت کی باقاعدہ منصوبہ بندی میں شامل نہ ہو۔(٢) مسجد میں تنگی ہو۔(٣) راستہ گزرنے والوں کا نقصان اَور حرج نہ ہو۔ مسئلہ : بستی میں صرف ایک مسجد ہو یا مسجدیں تو اَور بھی ہیںلیکن کوئی مسجد ایسی ہے جس کی ضرورت غیرمعمولی ہے مثلاً مسجد حرام یامسجد نبوی وغیرہ ، ایسی مسجدمیں توسیع نہایت ضروری ہو تو مسجدکے پٹروس میں جو زمین یامکان یادُکان ہو اُس کوقیمت کے عوض میں زبر دستی بھی لے سکتے ہیں۔ مسئلہ : اگر کوئی مسجدویران اَور منہدم ہوجا ئے اَور وہاں کوئی محلہ بھی باقی نہ رہے جس سے اُس کی آبادی کی آئندہ توقع ہو بلکہ وہ محض مسمارپڑی ہوتو ایسی صورت میں بعض فقہا ء نے اِس کی اِجازت دی ہے کہ