ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
سفر نامہ ........ چھ دِن مراکش میں ( جناب مولانا ضیاء المُحسن صاحب طیّب،برمنگھم، فاضل جامعہ مدنیہ لاہور ) مسجد کتبیہ: ہماری سب سے پہلی منزل مسجد کتبیہ تھی۔ یہ یہاں کی سب سے قدیم اَور تاریخی مسجد ہے جو غالبًا گیارہ سو سال پرانی ہے۔ مسجد کا بلند و بالا اَور اَکلوتا مینار اِس شہر کی شان اَور پہچان ہے۔ مراکش میں تمام مسجدوں پر اِسی طرح کا مینارہ بنایا جاتا ہے اِس مینار کے ماڈل پورے ملک میں فروخت ہوتے ہیں اِس مینار کو خاص اہمیت حاصل ہے مینار پر رات کو لائٹ کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ رات میں اِس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ مسجد کتبیہ میں بیس ہزار سے زائد نمازیوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ مسجد کی چھت میں استعمال کی گئی لکڑی ہزار سال گزرنے کے باوجود ایسے معلوم ہوتی ہے کہ آج ہی ڈالی گئی ہے۔ وضو کے لیے مسجد کے صحن میں ایک پرانی طرز کا گول شکل میں حوض بھی موجود ہے جبکہ بیت الخلاء مسجد کی حدود سے باہر ہیں۔ اِمام اَور مساجد : مراکش کی اکثر مساجد اَوقاف کے زیر اہتمام ہیں۔ کچھ پرائیویٹ مساجد بھی ہیں۔ اِمام اَور خطباء اَوقاف کے ملازم ہیں جن کی تنخواہ بہت قلیل ہے زیادہ تر مساجد کی حالت اچھی نہیں قدیم اَور بڑی مساجد میں روشنی کا مناسب اِنتظام نہ ہونے کی وجہ سے مساجد تاریکی میں ڈوبی ہوتی ہیں۔ مسجدوں کے اَندر جو قالین بچھائے گئے ہیں اُن کو دیکھ کر میں نے یوں تبصرہ کیا کہ مساجد میں قالین بچھائے نہیں بلکہ پھینکے گئے ہیں جو جس حالت میں پھینکا گیا ہے وہ اُسی حالت میں پڑا ہے اُس کو کسی نے سیدھا کرنے کی کوشش نہیں کی جس پر ہمارے ساتھی جناب ڈاکٹر غوری صاحب اَور مولوی آفتاب احمد صاحب خوب محظوظ ہوئے اَور کہا کہ آپ کا تبصرہ بڑا صحیح اَور بر موقع ہے۔ مساجد میں ایک عجیب قسم کی اَفسردگی چھائی ہوتی ہے جیسے اُن سے کوئی چیز چھین لی گئی ہو۔ نمازیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تسلی بخش نہیں،پڑھنے والوں سے نہ پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بچے نمازیوں میں شامل نہیں دیکھے اَور نہ ہی نمازیوں کو اپنے ساتھ بچوں کو مساجد لاتے دیکھا ہے۔ ایک لڑکا گلیوں