ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
چاند کے بارے میں بھی معلومات حاصل کیں اُور انہیں اپنا دُکھڑا بھی سنایا۔ مراکش میں اِمام مسجدوں کی اکثریت عمر رسیدہ اَور بوڑھے اماموں پر مشتمل ہے ائمہ مساجد کی تنخواہیں اِنگلینڈ کی طرح نہایت کم ہیں جن میں گزارہ کرنا مشکل ہے شاید یہی وجہ ہے کہ نوجوان اِمام اِس طرف نہیں آ رہے وہی پرانے اِمام اِس ڈیوٹی کو نبھا رہے ہیں، چند دنوں میں ہمیں اِتنا تجربہ ہو گیا تھا جو بوڑھا اَور عمررسیدہ آدمی ہم مسجد کی طرف جاتے دیکھتے تو ہم آپس میں اَز راہِ مذاق ایک دُوسرے سے کہتے کہ ''خدا اگر جھوٹ نہ بلوائے تو یہ جو بزرگ مسجد کی طرف رواں دواں ہیں یہ اِمام ہی ہونگے اکثر ہمارا اَندازہ بالکل صحیح نکلتا۔ مراکش شہر میں کئی تاریخی مقامات ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ہم اُن کا مختصر تعارف یہاں پیش کر دیتے ہیں : منابی پیلس : (MANEBY PALACE) منابی پیلس سابقہ بادشاہوں اَور حکمرانوں کے طرزِ حکمرانی اَور رہن سہن کی عکاسی کرتا ہے۔ پرانے طرز کے ایک بہت بڑے دروازے سے اَندر داخل ہوں تو پہلے ایک بڑا اِستقبالیہ کمرہ ہے اَور اُس سے آگے محل کے اَندر ایک بہت بڑا صحن ہے جس کے چاروں طرف بہت عمدہ کمرے بنے ہوئے ہیں اَور اُس صحن کے اَندر ایک بہت بڑا لکڑی کا فانوس لٹک رہا ہے جس کے اَندر اُس وقت مٹی کے دِیے جلا کر رکھے جاتے ہوںگے اَور وہ سارے محل کو روشن کرتا ہو گا۔ پیلس کے اَندر کمرے در کمرے کھلتے چلے جاتے ہیں گرمیوں کے کمرے الگ اَور سردیوں کے کمرے الگ بنے ہوئے ہیں کمروں کی دیواروں کو چھوٹے چھوٹے اَور مختلف رنگوں کے شیشوں کو مختلف ڈیزائنوں میں کاٹ کر اَور تراش کر بڑی مہارت اَور ترتیب سے سجایا گیا ہے۔ اِس پیلس کی کشتی نما چھتیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ بنائی اَور سجائی گئی ہیں جسے اِنسان دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اَور اُس کے بنانے والے کاریگروں کی تعریف کیے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اِس طرح کے محلات کا آج کے ترقی یافتہ دَور میں بھی بنانا تو در کنار سوچنا بھی مشکل ہو گا۔ قصر البھیہ: اِس کو گورنر کا محل کہا جاتا ہے محل میں داخل ہونے کے لیے ایک لمبے راستے سے گزر کر اَندر جانا پڑتا