ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
حرف آغاز نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم امابعد! ٢٤اکتوبر کی بات ہے جمعیت علمائے اِسلام کے ناظم عمومی حضرت مولانا عبدالغفور صاحب حیدری ظہر کے بعد جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے طلباء سے خطاب بھی فرمایا عصر کی نماز کے بعد جامعہ کے چمن میں چائے کی مجلس کے دوران قومی و صوبائی اسمبلی کا جعلی سندوں پر اِنتخاب لڑنے والے اَرکان پر بات چل نکلی تو مولانا نے بتلایا : ''اصل میں علماء کو اِسمبلی کی رُکنیت سے محروم اَور آئندہ کے لیے نا اہل قرار دینے کے لیے یہ سازشی تحریک شروع کی گئی تھی تاکہ کسی بہانے مدارس کی سندوں کو مسترد یا جعلی قرار دے کر علماء ِکرام سے گلوخلاصی کر لی جائے۔'' مگر ہوتا وہ ہے جو خدا چاہتا ہے جب تحقیقات شروع ہوئیں تو اُن کا دائرہ بڑھتا ہی چلا گیا اَور اِنکشاف ہوا کہ جعلی سندوں پر اِنتخاب لڑنے والوں کی بڑی تعداد کا تعلق بر سراِقتدار پیپلز پارٹی اَور مسلم لیگ سے ہے اَور اِس بات کا بھی اِنکشاف ہوا کہ اِن دونوں پارٹیوں کے بعض اَرکان نے مدارس سے بھی جعلی سندیں حاصل کر رکھی ہیں جن کے بل بوتے پر یہ اَن پڑھ اِسمبلیوں میں بیٹھے قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ کوئی دیوبندی مدرسہ اِس جعل سازی کا مرتکب ہوا ہو اَلبتہ اہلِ تشیُّع اَور دیگر مکاتب ِفکر کے مدارس اِس جعل سازی کے مرتکب ہوئے ہیں مگر حسب ِسابق سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کراِس رنگ میں بھنگ گھولنے کا سہرا کالج اَور یونیورسٹیوں کے سر رہا ہے۔ اِن کے سند یافتہ اَن پڑھ فضلاء ہی نے ایک طرف اَگر فلمی دُنیا سے بے حیائی کو فروغ دے کر یہود و نصاری کو شرما دیا ہے تو دُوسری طرف کھیل کود کے میدانوں میں جُھرلو چلا کر اِس کو اپنے اصل مقام پر