ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
میں ہمارے ساتھ پھرتا رہا جب ہم نما زکے لیے ایک مسجد میں جانے لگے تو میں نے اُس سے کہا کہ آئو نماز پڑھو تو اُس نے کہا اَنَا صَغِیْر ''میں چھوٹا ہوں'' حالانکہ وہ قریب البلوغ تھا۔ وضو کا نظام بہت ہی ناقص ہے۔ مسجد کی حدود سے باہر وضو خانے اَور بیت الخلاء بنائے گئے ہیں عمومًا مساجد میں جس طرح وضو خانے اَور ٹوٹیاں لگائی جاتی ہیں وہاں اِس طرح بہت کم دیکھیں پانی حاصل کرنے کے لیے ایک ٹوٹی لگی ہوئی ہے اَور وہاں پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی بالٹیاں رکھ دی گئیں ہیں نمازی لائن میں کھڑے ہو کر اُس ٹونٹی سے اپنی بالٹی بھرتے ہیں اَور کسی بھی جگہ بیٹھ کر وضو کر لیتے ہیں وضو کرنے کے لیے کوئی خاص جگہ نہیں جو کہ ایک بہت مشکل اَور تکلیف دہ چیز ہے ایسا طریقہ تو ہمارے کسی دیہات میں بھی نہ ہو گا جو مراکش کے اِنٹر نیشنل شہروں میں دیکھنے کو ملا۔ ٹرین میں دورانِ سفر ایک جرنلسٹ سے ملاقات ہوئی جو ہمارے ہی ڈبے میں سفر کر رہے تھے اُن سے مساجد کی حالت ِزار خصوصًا وضو خانے سے متعلق بات ہوئی تو اُنہوں نے بھی اِنتہائی مایوسی کا اِظہار کیا اَور کہا کہ یہی وجہ ہے کہ میں نے آج تک پوری زندگی میں کبھی مسجد میں وضو نہیں کیا اُنہوں نے بتایا کہ میں ملائشیا کا سفر کر چکا ہوں وہاں کی مساجد بہت خوبصورت ہیں وہاں صفائی اَور نزافت کا خصوصی اہتمام ہے مساجد کے وضو خانے اَور بیت الخلاء کسی فائیو سٹار ہوٹل کے معیار سے کم نہیں۔ مراکش میں مساجد کے اَندر داخل ہوں تو ٹوکریوں کے اَندر کپڑے اَور پلاسٹک کے بیگ پڑے ہوتے ہیں نمازی اپنی جوتیاں اُن کے اَندر ڈال کر مسجد کی سامنی طرف لگی لکڑی کی شلف پر رکھ دیتے ہیں اَور نماز سے فارغ ہونے کے بعد واپس بیگ ٹوکری میں رکھ دیتے ہیں۔ مساجد میں مکمل خاموشی ہوتی ہے ہماری طرح باتیں کرنے کا رواج نہیں۔ تمام مسجدوں میں ہم نے صفوں کے درمیان بڑی تعداد میں چھوٹے چھوٹے پتھر پڑے دیکھے تو ہم نے ایک آدمی سے پوچھا کہ یہ پتھر کس لیے رکھے گئے ہیں تو اُس نے بتایا کہ یہ تیمم کے لیے ہیں تا کہ مریض نمازی تیمم کر کے نماز اَدا کر سکیں۔ مساجد میں نماز کے بعد بیٹھنے کا بھی رواج نہیں اَور نہ ہی مؤذن اُن کو زیادہ دیر وہاں بیٹھنے دیتا ہے صرف مغرب کی نماز کے بعد عشاء تک مسجدیں کھلی رہتی ہیں۔ مسجد کے اِمام مؤذن اَور چند لوگ اجتماعی طور پر پارہ آدھا پارہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو کچھ لوگ بیٹھ کر تلاوت سنتے ہیں ایک مسجد میں ہم نے دیکھا کہ اُنہوں نے ویڈیو پر کسی سکالر کی تقریر لگا دی۔