ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
''کوٹھری میں ایک طرف کو بالٹی رکھی تھی جس میں وضو، پاخانہ پیشاب کرنے کا حکم تھا اِس بالٹی پر ڈھکنا بھی ہوتا تھا کوٹھری کا دروازہ لکڑی کا تھا جس میں کوئی سوراخ نہ تھا۔ کوٹھری میں پشت کی جانب سے ایک روشندان بہت اُونچا تھا جس سے ہوا اَور دِن کو روشنی آتی تھی۔ صبح کو ایک گھنٹہ اَور شام کو ایک گھنٹہ کوٹھری کھول کر ہوا کھلانے کے لیے نکالتے تھے۔ ''(اسیر مالٹا ص ٥٠) غرض کہ اِس طرح مالٹا کے موسم سرما کی صعوبتیں برداشت کیں اَور حق ِخدمت اَدا کر دیا۔ تعمیل ِحکم : اِن مختصر حالات سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک اُستاذ اور اُستاذ کے حکم کی کتنی بڑی عظمت ہو گی۔ چنانچہ تعمیل حکم میں بھی آپ نے مثال قائم کر دی اَور اپنی تمام مصلحتوں کو اُستاذ کے حکم کی تعمیل میں پامال کر دیا۔ حضرت شیخ الہند کو کلکتہ مدرسہ عالیہ کے لیے ایک مدرس کی ضرورت تھی ١ اَور آپ چاہتے تھے کہ کوئی قابل مدرس پہنچ کر وہاں کے حالات سنبھالے، بہت سے خدام حاضر تھے سب سے کہا گیا۔ سب نے اپنے اَعذار بیان کر کے معذرت چاہی۔ حضرت شیخ الاسلام نقش حیات میں تحریر فرماتے ہیں: ''حضرت (شیخ الہند) نے کلکتہ کی ضروریات ظاہر فرما کر حکم کیا کہ جو رائے اَور عذر ہو ہر ایک لکھ کر دیدے۔ مولانا مرتضیٰ حسن صاحب اَور مولانا شبیر احمد صاحب نے لکھا کہ ہماری مائیں کلکتہ جیسی دُور دَراز جگہ پر جانے کی اِجازت نہیں دیتیں ہیں۔ حضرت (شیخ الاسلام) نے لکھا کہ میں اَمروہہ میں حضرت ہی کے حکم سے گیا تھا اَور حضرت ہی کے حکم سے خدمت میں حاضر رہنے کی غرض سے ملازمت تدریس چھوڑ کر حاضر ہوا اِس لیے کلکتہ جانے میں یہ مقصد عظیم فوت ہو جاتا ہے (حضرت شیخ الہند اُن اَیام میں مریض اَور صاحب ِفراش تھے اِسی خدمت کی طرف اِشارہ کیا ہے) علاوہ اَزیں نہ میں تقریر کا ماہر اَور نہ عادی ہوں نہ تحریر کا، نہ مجھ میں ذکاوت ہے نہ حافظہ (منکسر المزاجی ملاحظہ ہو) آئندہ آپ کا جو حکم ہو اُس کی اِمتثال کے لیے حاضر ہوں۔ حضرت (شیخ الہند) نے ہر ١ حضرت مولانا آزاد نے آپ سے ایک مدرس طلب کیا تھا۔