ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
(٤) ایک کام یہ کرو کہ روزانہ کوئی وقت نکالو جس میں کسی کام کا کوئی حرج نہ ہو تو سب سے زیادہ بیکار وقت سونے کا ہے یہی لے لو۔ بس اِسی میں تھوڑے وقت میں کوئی کتاب دین کی بچہ کو دے دیجئے کہ وہ خود پڑھے یا آپ کو پڑھ کر سنائے، کوئی دِن اِس سے خالی نہ ہو۔ (٥) دُوسرے یہ کہ کبھی کبھی دو چار دن کے لیے جب سکول کی چھٹی کا زمانہ ہو اہل اللہ کی صحبت اختیار کریں خواہ کسی بزرگ کے پاس رہ کر یا جماعت میں نکل کر بلکہ اگر چھٹی کا پورا زمانہ اِس میں خرچ نہ کریں تو یوں کریں کہ مثلاً سکول میں مہینہ بھر کی چھٹی ہوتی ہے۔ اُس کے دو حصے کر لیں ایک حصہ کھیل کود میں گزاریں اَور ایک حصہ اہل اللہ کی صحبت میں۔ خلاصہ یہ ہے کہ روزانہ کاعمل تو یہ ہے کہ کتاب خود پڑھا کریں یا آپ سنایا کریں۔ اور کبھی کبھی کا عمل یہ ہے کہ اہل اللہ کی صحبت اِختیار کریں۔شروع ہی سے اِس طریقہ کا اِلتزام کیجئے۔ بس اِس طریقہ کے اَندر دو چیزیں ہوئیں: ایک یہ کہ اہل اللہ کی صحبت اِختیار کریں دُوسرے مسائلِ دین اَور اَحکام ِدین کی تعلیم جاری رکھیں۔ بس اِس کا اِلتزام کیجئے اَور شروع ہی سے کیجئے، شروع ہی سے کریں گے تو وہ آسانی سے پابند ہو جائیں گے۔ اِن سب کے ساتھ اِس کے عمل کی بھی نگرانی رکھیں مثلاً اَگر غیبت کریں تو رَوک دیجئے اَورکہیے کہ یہ بُری چیز ہے اِس سے اِن کو نفرت دِلائیے، اِن سے تکبر کی شان ظاہر ہو تو روک دیجئے اَور بتلائیے کہ اِس میں یہ خرابی ہے،جھوٹ بولے تو اُس کو خرابی بتلائیے، جماعت کی نماز چھوڑ دے تو تنبیہہ کیجئے۔ اگر سکول میں جماعت کی پابندی نہ ہو تو تعطیل (چھٹی) کے زمانہ میں تو ضرور ہو پھر جب بڑے ہو جائیں تو عمر کا ایک حصہ سال دو سال ایسامل جائے کہ اِس میں اہل اللہ کی صحبت مسلسل نصیب ہو جائے تو یہ بہت ہی نافع ہے سال بھر نہ ہو تو چھ ماہ سہی یہ بھی نہ ہو تو چالیس دن ہی سہی۔ حدیث شریف میں اِس عدد کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ بچوں کو حرص ولالچ سے بچانے کی تدبیر : (١) کسی کے پاس کوئی چیز دیکھے تو حرص نہ کرے۔ اَور اِس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی حیثیت کے موافق اُس کو پسندیدہ چیز خود منگا کر اُس کو کھلاتا پلاتا رہے اَور جب وہ ضد کرے ہرگز اُس کی ضد پور ی نہ کرے تاکہ ضد کرنے کی عادت چھوٹ جائے (بلکہ پیدا نہ ہونے پائے)۔ (باقی صفحہ ٢٩ )