ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
آج کے حکمران اَور ٹیکسوں کی بھر مار : ہمارے دَور میں تو اِن کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی ٹیکس لگادیتے ہیں مہنگا کردیتے ہیں زبردستی وصول کرتے ہیں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ رعایا کی سہولت کس چیز میں ہے مگر اُن کے یہاںمسلم اَور غیر مسلم تمام ہی رعایا کی رعایت نہایت ضروری تھی۔ علاقائی نفرتوں سے بچائو،زکوة کی وصولی اَور تقسیم کا طریقہ : ایک تو وہ ہے آمدنی کہ جس میں کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی ہے جیسے کہ قدرتی پیداوار تو اُس کی بات اَلگ ہے باقی جس میں محنت کرتی پڑتی ہے اُنہیں کچھ کرنا پڑتا ہے تو اُس کے لیے یہ ہے کہ ایک تناسب سے لیا جائے اُن سے اَور پھر لے کر وہ زکٰوة وغیرہ جو ہوگی وہ خرچ کی جائے گی اُس ہی علاقے کے لوگوں پر پہلے، اُن کی ضروریات کو ترجیح دی جائے گی تاکہ یہ علاقائی جو ہیں(نفرت کے) جذبات یہ پیداہی نہ ہونے پائیں ورنہ وہ کہتے ہیں کہ دیکھو پیداوار ہماری اَور ہم ہی محروم۔تو اِس بات کا اِحساس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بہت زیادہ تھا۔ سرکاری چراگاہ ،مالداروں کے مقابلہ میں مقامی لوگوں کی رعایت : ایک علاقہ تھا جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چراگاہ بنالی تھی سرکاری تو اُس علاقے والوں کے بارے میں اُنہوں نے ہدایت کی تھی کہ اگر مقامی لوگوں کے جانور سرکاری چراگاہ میں آجائیں تو منع نہ کرنا اُنہیں مت روکنا باقی حضرت عثمان حضرت عبدالرحمن ابن ِ عوف رضی اللہ عنہما تواِن کے جانوروں کو اِجازت نہیں ہے اِن کے جانوروں کو بالکل نہ آنے دیں اَور فرمانے لگے کہ اَگر اِن کے جانور مر بھی جائیں تو اِن کے لیے گزرِ اَوقات کی اَور صورتیں بھی ہیں اَور اُن(غریب مقامی لوگوں) کے جانور اَگر مرگئے تو وہ کیا کریں گے؟ وہ تو غریب لوگ ہیں اُن کے دِل میں تو یہ آئے گا کہ یہ زمین وہ ہے جو ہمارا حق تھی ہم سے چھین لیا اِس حق کو، ہمیں اِس سے فائدہ پہنچتا یہ فائدہ ہم سے روک دیا ہے ۔وہ یہ فرماتے ہیں کہ یہ غلط ہوگا وہ اِسی پر زمانۂ جاہلیت میں رہے ہیں قائم اِسی زمین کی حفاظت کرتے رہے ہیں اپنی زمین پر دُوسرے کی حکومت نہیں ہونے دی ہے اُنہوں نے تو فَقَاتَلُوْا عَلَیْھَا فِی الْجَاہِلِیَّةِ وَاَسْلَمُوْا عَلَیْھَا فِی الْاِسْلَامِ ١ زمانۂ جاہلیت میں وہ ١ بخاری شریف ص٤٣٠