ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
اہل ِبدر کو فی کس پانچ ہزار وظیفہ : وہ فرماتے ہیں کہ اہلِ بدر کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ پانچ پانچ ہزار تھا ،اَب یہ پانچ پانچ ہزار درہم سالانہ اگر ہو وظیفہ تو اُس زمانے کے لحاظ سے بہت بڑی رقم تھی یہ۔ مفتوحہ زمینیں اَور اِسلامی اصول : اِسلام کا قاعدہ یہ ہے کہ جہا د میں جو لوگ شریک ہوں اَور کوئی علاقہ فتح کرلیں لڑکر تو وہ علاقہ اِمام کو اِختیار ہے یعنی خلیفۂ وقت کوکہ چاہے تو اُس کو اِن لوگوں میں تقسیم کردے اَور چاہے تو وہ بیت المال کی ملکیت قرار دے اَور اُس آمدنی میں سے جو اُس علاقے سے ہوتی ہے مجاہدین کو وظیفہ دیتے رہیں۔ یہ وہ مجاہدین ہیں کہ جو تنخواہ نہیں لیتے جہاد کے لیے نکلتے تھے اپنے خرچ پر تو ایسے لوگ کہ جو اَپنے خرچ پر جہاد کے لیے جائیں وہ علاقہ فتح کرلیں تو اُن کے لیے دونوں میں سے ایک صورت اِختیار کی جائے گی یا وہ علاقہ بانٹ کر اُن سب کو دے دیا جائے گا چاہے مرلے مرلے آئے چاہے کنال کنال آئے چاہے ایکڑوں کے حساب سے آئے چاہے مربوں کے حساب سے آئے وہ اُنہیں دے دیا جائے گا۔ دُوسری صورت وہی ہے کہ یہ سب بیت المال کا ہو اَور مرکزی بیت المال میں جمع ہوتی رہے گی یہاں کی آمدنی اَور اُس کا طریقہ بھی ہے کچھ کہ بیت المال حکم دے گا کہ اِس علاقے والوں کو ترجیح دو اِن کی ضروریات پہلے پوری کرو جو اِن سے بچتا ہے وہ مرکزی بیت المال میں جایا کرتا ہے۔ رعایا پر ٹیکس ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی احتیاط : حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے بخاری شریف میں روایت ہے کہ صحابۂ کرام خراج وصول کرکے لائے عراق کا تو اُنہوں نے کہا کہ دیکھو تم اِتنا زیادہ لے آئے ہو کہ جو وہاں کی زمین کی پیداوار سے زیادہ لگتا ہے مجھے،اِتنی پیداوار نہیں ہوتی ہوگی کہ جس پر اِتنا خراج وصول کیا جائے ھَلْ حَمَّلْتُمَا الْاَرْضَ مَالَا تُطِیْقُ دو حضرات تھے وہ جو گئے تھے اِس کام کے لیے وہاں مقرر ہوکر اَفسر ہوکر اُن سے اُنہوں نے کہا کہ کیا تم نے ایسے تو نہیں کیا اُنہوں نے کہا نہیں یہ بات نہیں ھِیَ لَہ مُطِیْقَة پھر اُنہوں نے کہا اُنْظُرَا ١ غور کرو کہیں ایسا تو نہیں، اَب یہ اَدنی اَدنی سی باتیں ہیں مگر......! ١ بخاری شریف ص ٥٢٣