ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
توبہ نامہ ( جناب پروفیسر یوسف سلیم صاحب چشتی مرحوم ) حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کا دُوسرا خط جناب ِطالوت کے نام محترم المقام، زید مجدکم، السلام علیکم، مزاج شریف والا نامہ مجھ کو کلکتہ میں ٢٤ ذی الحجہ کو ملا۔ میرے محترم! سر موصوف کا اِرشاد ہے کہ اگر بیان واقعہ مقصود تھا تو اِس میں کوئی کلام نہیں ہے، اگر مشورہ مقصود ہے تو وہ خلافِ دیانت ہے۔ اِس لیے میں خیال کرتا ہوں کہ اِلفاظ پر پھر غور کیا جائے اور اِس کے ساتھ ساتھ تقریر کے سابق ولا حق پر بھی نظر ڈالی جائے۔ میں عرض کر رہا تھا کہ موجودہ زمانے میں قومیں اَوطان سے بنتی ہیں۔ یہ اُس زمانے میں جاری ہونے والی نظریت اَور ذہنیت کی خبر ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا جاتا کہ تم کو ایسا کرنا چاہیے (یعنی) خبر ہے اِنشا نہیں ہے۔ کسی ناقل نے مشورے کو ذکر بھی نہیں کیا، نہ اَمر و اِنشا کا لفظ ذکر کیا ہے پھر اِس کو مشورہ قرار دینا کس قدر غلطی ہے۔واقعہ اصلی یہ تھا کہ میں تقریر میں اُن اُمور کو گنوا رہا تھا جو ہندوستانیوں کو بالعموم اَور مسلمانوں کو بالخصوص انگریزوں سے ہندوستان میں پہنچے ہیں۔ اُن میں پہلی چیز ذکر میں ذلت آئی تھی کہ اِس وقت ہم تمام دُنیا میں ذلیل شمار کیے جاتے ہیں کیونکہ ساری دُنیا کا خیال ہے کہ ہندوستانی (ہندوستان کے باشندے) ایک قوم ہیں اَور وہ سب کے سب غلام ہیں اَور غلام ذلیل و خوار ہوتا ہی ہے اِس لیے ہم بیرونی ممالک میں نہایت ذلیل دیکھے جاتے ہیں، وہاں کے لوگ مسلمان، ہندو، سکھ، پارسی، یہودی ،وغیرہ کا مذہبی یا نسلی یا صفتی فرق نہیں دیکھتے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانیوں کے متعلق نٹاں، ٹرانسوالی، زنجیبار، کیپ کالونی، ماریشس، نیروبی، کینیا، فجی، آسٹریلیا، کینیڈا اَور امریکہ وغیرہ نہایت شرمناک اَورذلیل