ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
ایک کی تحریر پر غور کیا اَور تھوڑی دیر سکوت کر کے فرمایا کہ اپنے ہی کی طرف جھکنا پڑتا ہے (قابلِ غور فقرہ ہے) تم چلے جائو، میری طرف خطاب کر کے فرمایا۔ میں نے عرض کیا بہت اچھا میں حاضر ہوں۔'' (نقش حیات ص ٢٦٣ ج ٢) اِس کے بعد آپ کلکتہ ایسا پہنچے کہ پھر اپنے شفیق اُستاذ کا دیدار بھی نہ کر سکے اِس لیے کہ چند دنوں کے بعد ہی حضرت شیخ الہند کا وصال ہو گیا تھا۔ محبت ِمشائخ : اِن واقعات سے بالکل واضح ہے کہ آپ کو اپنے مشائخ سے کس قدر محبت تھی تاہم چند واقعات اَور پیش کرتا ہوں تقسیم ہند سے پیشتر رمضان المبارک میں آپ سلہٹ قیام فرماتے تھے۔ جب وہاں سے رُخصت ہوتے تو سینکڑوں فدا کار جدائی کے صدمہ کی وجہ سے چیخ مار مار کر رویا کرتے تھے کسی نے حضرت سے دریافت کیا کہ حضور آپ کو ہماری جدائی کا صدمہ بھی ہوتا ہے کہ نہیں۔ اِرشاد فرمایا کہ حضرت شیخ الہند اَور حضرت گنگوہی کے وصال کے صدمہ کے سامنے دُوسرے صدموں کی کوئی حقیقت نہیں اُسی وقت تمام صدموں کے حصہ کا رونا رو چکا ہوں۔ ١ اُستاذی مولانا سید فخر الحسن صاحب مدرس دارالعلوم دیو بند نے اِرشاد فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت کے ساتھ گنگوہ شریف کے جلسہ میں جانے کا اِتفاق ہوا۔ جب رات کے دو بجے تو میں اِس فکر میں تھا کہ دیکھوں حضرت آج رات کو کیا کرتے ہیں چنانچہ آپ اُٹھے اَور حضرت گنگوہی کے مزار پر تشریف لے گئے۔ میں دبے قدموں پیچھے ہو لیا مگر ذرا فاصلہ سے کہ معلوم نہ ہو، آپ جب مزار پر پہنچے تو اِتنے اَشکبار ہوئے کہ دُور سے آپ کے رونے کی آواز سُنی جاتی تھی۔ حضرت نے اپنے مشائخ سے تعلق اَور محبت کو اِس شعر سے ظاہر فرمایا ہے۔ قبر سے اُٹھ کے پکاروں جو رشید و محمود بوسہ دیں لب کو مرے مالک و رضواں دونوں بہر حال آپ کو اپنے مشائخ سے بے اِنتہا تعلق اَور عشق تھا اَور فنا فی الشیخ کے اعلیٰ مقام کو آپ نے طے کیا تھا۔ چنانچہ نقش حیات ص ٩٢ ج ١ میں رقمطراز ہیں : ١ روایت حاجی حبیب الرحمن صاحب سیو ہاروی