ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
ہے اِس راستے کی مسافت پانچ سو میٹر کے قریب ہو گی۔ راستے کے دونوں جانب مالٹے کے درخت اپنے پورے جوبن اَور پھلوں سے لدے ہوئے تھے ،آج کل چونکہ موسم مالٹوں کا تھا تو ہر طرف درختوں پر محسوس ہوتا تھاجیسے زرد رنگ کی چادر تان دی گئی ہو۔ اِس کو گورنر کا محل کہا جاتا ہے مگر یہ کسی بادشاہ کی رہائش گاہ سے کم نہیں۔ گارڈن ماجولیل : (GARDEN MAJORELLE) یہ ایک سیر گاہ ہے جس کو بہت خوبصورتی کے ساتھ سجایا اَور بنایا گیا ہے چلنے کے لیے چھوٹے راستے بنائے گئے ہیں بے شمار قسم کے پودے، پانی کے فوارے ،تالاب اَور رنگا رنگ کے پھول اُن کا دل موہ لینے کے لیے کافی ہیں۔ اِس سیر گاہ میں آدمی آ کر سوچتا ہے کہ اگر وہ اِس جگہ کو نہ دیکھتا تو اُس کے سفر میں کسی چیز کی کمی رہ جاتی۔ بواری احمد المنصور : شہر کے وسط میں یہ ایک بہت بڑا قلعہ نما محل ہے جس کو بواری احمد المنصور کہا جاتا ہے اِس محل کی بلند و بالا اَور مضبوط دیواریں ایک زمانہ گزر جانے کے بعد بوسیدہ ہو گئی ہیں اَور جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں یوں لگتا ہے کہ وہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہیں۔ اِس محل کے کھنڈرات اَب بس سیاحوں کے لیے کھیل تماشہ اَور عبرت کے سامان کے علاوہ کچھ نہیں۔ محل کے اَندر ایک بہت بڑا صحن ہے جس میں جگہ جگہ مالٹے کے درخت لگے ہوئے ہیں اُن سر سبز درختوں نے ہی اِس محل کے اَندر زندگی کی کچھ رَمق باقی چھوڑی ہے۔ اِس وسیع و عریض صحن میں بادشاہ کسی وقت دربار لگاتے ہوںگے دُوسرے ممالک کے بادشاہوں کا اِستقبال کرتے ہوں گے ہٹو بچو کی صدائیں اَور آوازیں ہر طرف گونجتی ہوں گی بادشاہ کے رُعب اَور دبدبے کی وجہ سے محل کے ملازمین کے خون خشک ہو جاتے ہوں گے مگر آج یہاں کوئی نہیں نہ بادشاہت نہ کوئی رعایا بلکہ چند غیر ملکی سیاح اپنے کیمرے اُٹھائے طنزو مزاح اَور خوش گپیوں میں اِن کھنڈرات کے پوز اپنے کیمروں میں محفوظ کر رہے تھے۔ اِس محل کے اَندر دو چوکیدار ایک ٹوٹے پھوٹے اَور بوسیدہ کمرے میں اپنا ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے قہوے کی کیتلی اُنہوں نے چولہے پر چڑھا رکھی تھی اُنہوں نے ہمیں اَندر آنے کی دعوت دی اَور بتایا کہ یہ بادشاہ کا محل تھا میں نے اَز راہ مذاق اُس سے کہا کہ اَخِی تمام بادشاہ مر گئے اَب تم ہی یہاں کے بادشاہ ہو کیونکہ