ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
اُس کے مر جانے کے بعد نہلایا تو قسم ٹوٹ گئی۔ اَور وہ اَفعال جو حالت ِحیات کے ساتھ خاص ہیں مثلاً وہ اَفعال جو لذت یا اَلم یا سرور یا غم کا باعث ہوں مثلاً گالم گلوچ کرنا اَور مار پیٹ کرنا وغیرہ تو اِن کی قسم صرف حالت ِحیات کے ساتھ خاص ہو گی۔ لہٰذا اَگر قسم کھائی کہ میں تجھے نہیں مارُوں گا یا تجھے گالی نہیں دُوں گا پھر اُس کے مرنے کے بعد اُس کو مارا یا گالی دی تو قسم نہیں ٹوٹی۔ مسئلہ : جس قسم کو اُس کا وقت آنے سے پہلے پورا کرنا ممکن نہ رہے تو وہ قسم ختم ہو جاتی ہے مثلاً قسم کھائی کہ اپنا قرض کل اَدا کر دُوں گا پھر آج ہی قرض اَدا کر دیا یا قسم کھائی میں کل اُس کو قتل کر دُوں گا لیکن جس کو قتل کرنا تھا اُ س کی آج ہی موت ہو گئی تو قسم نہیں ٹوٹے گی۔ مسئلہ : زید نے کھانا کھاتے ہوئے بکر کو بھی کھانے کی دعوت دی۔ بکر نے کسی رنجش کی بناء پر قسم کھائی کہ میں کھانا نہیں کھائوں گا تو اِس قسم کا تعلق صرف اِس کھانے کے ساتھ ہو گا، بعد میں اگر کسی اَور وقت بکر نے کھانا کھایا تو قسم نہیں ٹوٹی۔ اِسی طرح بیوی ایک وقت اپنی ماں کے یہاں جانے پر بضد تھی ،شوہر کہتا تھا اِس وقت مت جائو، بیوی کے نہ ماننے پر شوہر نے کہا اگر تو گئی تو تجھے طلاق ،تو اگر بیوی اُس وقت نہ گئی بعد میں پھر کسی وقت گئی تو طلاق نہ پڑے گی کیونکہ قسم کھانے والے کا مقصد صرف اُسی وقت سے تھا۔ اِس قسم کو'' یمین فور'' کہتے ہیں۔ مسئلہ : کسی نے دُوسرے کو کہا تمہیں خدا کی قسم ہے فلاں کام کر دو یا فلاں کام مت کرو تو اِس سے متکلم یا مخاطب دونوں میں سے کسی پر قسم واقع نہیں ہوتی۔ مخاطب پر اِس کے مطابق عمل کرنا واجب نہیں اَور نہ ہی اِس کے خلاف کرنے سے کسی پر کفارہ واجب ہوتا ہے۔ اَلبتہ بہتر یہ ہے کہ اگر کوئی جائز کام ہو تو اللہ تعالیٰ کے نام کی تعظیم کی خاطر مخاطب اگر ممکن ہو تو اُس کی تعمیل کرے۔ قسم میں عام کی تخصیص کی نیت کرنا : قسم میں لفظ عام کا استعمال کیا لیکن اِس کے کسی ایسے خاص فرد کی نیت کی جو دعویٰ سے مختلف ہے تو اگر قسم کھانے والا مظلوم ہو تو اُس کی نیت معتبر ہو گی اَور اگر ظالم ہو تو معتبر نہیں ہو گی مثلاً زید کے پاس ایک کتاب ہے جو اُس نے خالد سے خریدی ہے۔ بکر زید کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اِس کتاب کو اُس کے ہاتھ فروخت کر دے