ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
اِرسال کی ہے۔ اُس خط میں مولانا اِرشاد فرماتے ہیں : ''میرے محترم سر صاحب کااِرشاد ہے کہ اگر بیان واقعہ مقصود تھا تو اُس میں کوئی کلام نہیں ہے اَور اگر مشورہ مقصود ہے تو وہ خلافِ دیانت ہے اِس لیے میں خیال کرتا ہوں کہ پھر اِلفاظ پر غور کیا جائے اَور اُس کے ساتھ ساتھ تقریر کے لاحق و سابق پر نظر ڈالی جائے۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ موجودہ زمانے میں قومیں اَوطان سے بنتی ہیں۔ یہ اُس زمانے کی جاری ہونے والی نظریت اَور ذہنیت کی خبر ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ ہم کو ایسا کرنا چاہیے، یہ خبر ہے، انشا نہیں ہے۔ کسی ناقل نے مشورے کو ذکر بھی نہیں کیا پھر اِس کو مشورہ قرار دینا کس قدر غلطی ہے۔'' خط کے مندرجہ بالا اِقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا اِس بات سے صاف اِنکار کرتے ہیں کہ اُنہوں نے مسلمانانِ ہند کو جدید نظریہ قومیت اِختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ لہٰذا میں اِس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ کو مولانا کے اِس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق اعتراض کرنے کا نہیں رہتا۔ میں مولانا کے اُن عقیدت مندوں کے جوشِ عقیدت کی قدر کرتا ہوں جنہوں نے ایک دینی اَمر کی توضیح کے صلے میں پرائیویٹ خطوط اَور پبلک تحریروں میں گالیاں دیں۔ خدائے تعالیٰ اُن کو مولانا کی صحبت سے زیادہ مستفید فرمائے۔ نیز اُن کو یقین دِلاتا ہوں کہ مولانا کی حمیت ِدینی کے احترام میں، میں اُن کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں۔'' محمد اقبال حرفِ آخر : الحمدللہ کہ میں نے اُس زمانے کے عقیدت مندانِ اِقبال کی آگاہی کے لیے اِس صداقت کو دوبارہ واضح کر دیا کہ حقیقت حال سے آگاہ ہو جانے کے بعد علامہ اقبال نے اپنا اعتراض واپس لے لیا تھا اَور وہ اَشعار محض اِس لیے ''اَرمغانِ حجاز'' میں راہ پا گئے کہ اِس اعتراف کے صرف تین ہفتوں کے بعد علامہ وفات پاگئے اَور اُنہیں یہ ہدایت دینے کا موقع نہ مل سکا کہ اِن اشعار کو اَرمغانِ حجاز میں شامل نہ کیا جائے۔ اگر کوئی