ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
تو صرف اِس کا قوال ہی ہو گا، ہم قوال اَور فعال دونوں ہیں۔ قوم کی بے حسی اَور کمزوری کی وجہ سے اِس حالت میں پڑے ہوئے ہیں پھر کس قدر تعجب خیز اَمر ہے کہ قوم اَور ملت اَور دین کو ایک قرار دیا گیا۔ میں فرق کو پہلے خط میں نقل کر چکا ہوں اگر خلاف ِلُغت سرصاحب موصوف کا نظریہ دونوں کے اِتحاد کا ہے تو اُن کو اپنے نظریے کے مخالف کو ایسے ناشائشہ اِلفاظ کہنے کا کیا حق تھا۔ بہر حال بدم گفتی و خورسندم عفاک اللہ نکو گفتی جوابِ تلخ می زیبد لب لعل شکر خارا میرے محترم! ہم تو ایسے سب و شتم کے عادی ہو چکے ہیں اِس لیے سن کر کوئی تغیر نہیں ہوتا رنج کا خوگر ہوا اِنسان تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں اِتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں مسلم لیگ کی شرمناک کارروائیاں مشاہدہ کرنے کے بعد جب سے علیحدہ ہوا ہوں، ہر قسم کے سب و شتم کا بہ نسبت سابق زیادہ نشانہ بنا ہوا ہوں، وہ کون سے اِلفاظ اَور معاملا ت ہیں جو نہیں کیے گئے۔ سر موصوف صاحب تو پھر بھی غیر ہیں یہاں اپنے ہی کیا کمی کر رہے ہیں۔ و السلام ننگ ِاسلاف حسین احمد غفرلہ ٢٥ ذی الحجہ ١٣٥٦ھ ٭ جنابِ طالوت کا خط علامہ اقبال کے نام متاع محترم اِسلا میاں السلام علیکم ورحمة اللہ اگرچہ میرا یہ درجہ نہیں کہ آپ سے شرف مخاطبت حاصل کر سکوں مگر ''اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ الْمَحْذُوْرَاتِ'' کی بناء پر باوجود اِس علم کے کہ آپ کی طبیعت کچھ نا ساز رہتی ہے، تکلیف دینے کی معافی چاہتا ہوں۔