ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
ترین قوانین اپنے یہاں بناتے ہیں اَور ہندوستانی باشندوں کو شہری حقوق سے محروم کرتے ہیں اَور ہم وہاں کے ہندوستانی باشندوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ کیا وہ یہ سلوک جاپان یا چین یا اٹالین یا انگلینڈ یا ڈچ وغیرہ آزاد قوموں کے ساتھ کر سکتے ہیں؟ اِسی طرح ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے متعلق جو فلسطین، مصر، سیریا، عراق، طرابلس یا اَلجیریا میں موجود ہیں آوازیں اُٹھاتے ہیں، مگر کوئی یورپین طاقت ہماری آواز کی طرف رُخ نہیں کرتی اَور نہ متاثر ہوتی ہے اِس کی وجہ یہی ذلت ہے۔ خود برطانیہ کے مقابل پر ہم اُس کے کھلے ہوئے مظالم پر جو ہندوستان اَور سرحد میں ہو رہے ہیں پروٹسٹ کرتے ہیں مگر وہ کان بھی نہیں دھرتی۔ دُوسری چیز میں نے ذکر کی تھی، بزدلی اَور جبن۔ تیسری چیز نفاق، چوتھی چیز فقرو فاقہ، پانچویں چیز جہالت، چھٹی چیز کسل اَور سستی، ساتویں چیز بد عقلی، آٹھویں بیکاری وغیرہ، مسلمانوں کے لیے خصوصی دارُا لاسلام کا دارالحرب ہو جانا، عالم ِاِسلامی کا اِس غلامی کی وجہ سے برباد ہونا، مذہبی اُمور کا غارت ہونا وغیرہ، یہاں کوئی مشورہ بجز اِس کے ذکر نہیں کیا گیا تھا کہ اَشد ضروری ہے کہ جلد اَز جلد کوشش کر کے ہندوستان کو آزاد کرائیں اگر اِس مشورے کو خلاف ِدین و اَمانت شمار کیا جاتا ہے تو علی الاعلان کہتا ہوں کہ میں اِس کو فرض سمجھتا ہوں فَذَالِکَ ذَنْب لَسْتُ مِنْہُ اَتُوْبُ۔ (یہ ایسا گناہ ہے جس سے میں توبہ نہیں کر سکتا) دُنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے یہ مشورہ دُوں گا اَور میرا اعتقاد ہے کہ اِس میں تقصیر کرنا مسلمان کیلیے حرام ہے اپنی طاقت کے مطابق اِس میں حصہ لینا ضروری ہے۔ باقی رہا مِلتِ اِسلامی کا بِلا اَنساب، بِلا اوطان، بِلا اَلوان، بِلا صنائع وغیرہ متحد ہونا اَور کرنا تو یہ دُوسرا اَمر ہے اِس کو بھی ہم جانتے ہیں ہماری گھٹی میں پڑا ہے۔اِس کی بنا پر ہم مالٹا میں قید رہے ہم نے کراچی کا جیل کاٹا اَور سینکڑوں مصائب اُٹھائے اَور بچپن سے اِس کی تعلیم پائی اَور قرآن کی آیات، اَحادیث ِصحیحہ اَور روایات آج نہ سطور میں بلکہ صدور میں موجود ہیں جن کو بارہا منا برپر مجامع میں ہم پڑھتے ہیں اَور اُس کا وعظ سناتے ہیں کوئی