ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
یہ بدعت ہے۔ ٭ کوڑا مارنے کے بعد جلاد کوڑے کو(جِلد پر) کھینچے نہیں بلکہ اُٹھالے، مارنے کے بعد اُسے کھینچنا ایسا ہی ہے جیسے دُوسری دفعہ مارا گیا ہو۔ ٭ جلاد سمجھدار ہونا چاہیے جو مار کی کیفیات کا ماہر ہو وہ درمیانی درجہ کی ضرب سے مارے نہ بہت شدید اَور نہ ایسی کہ کوڑے کے کوڑے کا احسا س ہی نہ ہو۔( بدائع الصنائع ص:٦٠ ج: ٧، المدونة الکبرٰی ص: ٢٤٨ج: ٦) ٭ مرد کے کھڑے کھڑے اَور عورت کو بٹھا کر کوڑے لگائے جائیں گے حدود میں بھی اَور تعزیرات میں بھی۔( شامی ص: ١٦١ ج: ٣ ) ٭ تعزیرات میں بھی اُن سب جگہوں کو مار سے بچایا جائے گا جنہیں حد میں بچایا جاتا ہے۔(شامی) ٭ کوڑا لگاتے وقت چاہے اُسے درخت وغیرہ سے باندھ دیا جائے لیکن اُس کے ہاتھ کھلے چھوڑے جائیں گے جن سے وہ اپنا بچائو کرتا رہے گا نہ اُسے باندھا جائے گا نہ زمین پر لٹایا جائے گا اَور کوڑے لگنے سے خون نہ بہہ نکلے اِس کا لحاظ رکھا جائے گا۔( کتاب الام ص: ١٥٤ ج: ٧) ٭ شریعت میں حد لگانے کا مقصد یہ ہے کہ (اُسے اِس توہین سے شرم) عار دِلا کر دُوسروں کو عبرت بھی دِلائی جائے تا کہ دُوسرے لوگ ایسا نہ کریں یا یہ مقصد ہے کہ حکمِ خداوندی پورا کر دیا جائے تا کہ اُس کے جرم کا کفارہ ہو جائے۔( مزنی عن الشافعی مختصر المزنی ص: ٢٦٧، کتاب الام ص: ١٥٤ ج: ٧) ٭ اِسی لیے اِس کی حد سے زیادہ توہین نہیں کی جا سکتی کسی مسلمان کی گُدّی (گردن) پر چپت نہیں مارے جائیں گے عَنِ السَّرَخْسِیِّ لَایُبَاحُ بِالصَّفْحِ لِاَنَّہ مِنْ اَعْلٰی مَایَکُوْنُ مِنَ الْاِسْتِخْفَافِ فَیُصَانُ عَنْہُ اَھْلُ الْقِبْلَةِ۔( شامی: ١٩٥ ج:٣) ٭ تعزیر اُس شخص کی غلطی کی تشہیر کر کے بھی ہو سکتی ہے۔ تذلیل و توہین کر کے بھی مثلاً جھوٹے گواہ کا منہ کالا کر کے، یہ بھی تعزیر میں داخل ہے۔ (شامی ص: ١٩٥ ج: ٣) ٭ باپ کا بیٹے کو مارنا بھی تعزیر کہلاتا ہے ۔ (شامی ص: ٢٠٧ ج: ٣)