ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
٭ حدود میں حد جاری کرنی ضروری ہوتی ہے جیسے حدِ قذف لیکن بعض اَوقات مجرم ایسے مرض میں مبتلا ہوتا ہے جو کبھی بھی جانے والا نہ ہو جیسے سِل وغیرہ یا وہ قدرتی طور پر بہت ہی لاغر و کمزور ہوتا ہے تو ایسی صورت میں تخفیف کر کے کوڑوں کے بجائے کھجور کا ایسا خوشہ لے لیا جائے گا جو پھیلا ہوا ہو اَور اُس میں سو شاخیں ہوں یہ ایک دفعہ اِس طرح مار دیا جائے گا کہ سب شاخیں اُس کے بدن پر لگ جائیں۔( شامی ص: ١٦٣ ج: ٣) ٭ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اِس فیصلہ کا اعلان فرما دیا تھا کہ اگر کسی حاکم نے تعزیر میں کسی کو بے جا سزا دی ہے تو اُس حاکم سے اُس شخص کا بدلہ دِلائوںگا کیونکہ جناب رسول اللہ ۖ نے بدلا دِلایا تھا۔ (کتاب الخراج للامام ابی یوسف ص:١١٥) ٭ حد اَور تعزیر میں مارنا صرف اِس صورت میں ہو سکتا ہے کہ کسی کی حق تلفی کی گئی ہو مثلاً فسق و فجور کا اِرتکاب یاقذب یا نشہ لیکن کسی کے تہمت لگا دینے پر یا کسی معمولی گناہ کے اِرتکاب پر تعزیر میں مارنا درست نہیں کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جناب رسول اللہ ۖ نے مسلمانوں کو مارنے پیٹنے سے منع فرمایا ہے نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ عَنْ ضَرْبِ الْمُصَلِّیْنَ اَور ہمارے نزدیک وَاللّٰہُ اَعْلَمُ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے یہ بتلایا ہے کہ بغیر اِس کے کہ اُن پر ایسی حد واجب ہوتی ہو کہ جس پر مارنے کا حکم آیا ہو اُنہیں مارا نہیں جا سکتا۔ (کتاب الخراج ص: ١٥١) (3) مالی جرمانے : آپ نے مالی جرمانوں کے بارے میں دریافت کیا ہے کہ شرعًا جائز ہیں یا نہیں؟ جواب : تویہ خلافِ اِسلام ہیں کہیں مالی جرمانوں کا ثبوت ہی نہیں ہے ہمارے یہاں ایسے تمام قوانین کو بدل ڈالنا نہایت ضروری ہے جو خلافِ اِسلام چل رہے ہیں۔ تعزیر کی سزا میں مالی جرمانہ نہیں کیا جاسکتا لَا یَجُوْزُ لِلْمُسْلِمِیْنَ اَخْذُ مَالِ اَحَدٍ بِغَیْرِ سَبَبٍ شَرْعِیٍّ شرعی وجہ کے بغیر کسی مسلمان کو یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کا بھی مال لے لے۔ (فتاوٰی شامی ١٩٥،١٩٦ج:٣) اَلبتہ شخصی نقصان کا تاوان دِلایا جاتا ہے، اور مغنی میں ہے: ''مجرم کا مال ضبط کرنا جائز نہیں کیونکہ شریعت ِمطہرہ میں ایسا حکم کہیں کسی ایسی شخصیت سے منقول نہیں ہے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہو ۔(المغنی ص: ٣١٦ ج:٨)۔(جاری ہے) ض ض ض