ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
ہے ۔ کنوارے مرد و عورت اَگر زنا کا اِرتکاب کریں تو اُنہیں سو کوڑوں کی، اَور اگر کوئی کسی پر زنا کا اِلزام لگا دے اَور اُسے ثابت نہ کر سکے تو اُسے اَسی (٨٠) کوڑوں کی، اَور اگر کوئی شراب پئے ہوئے پکڑا جائے تو اُسے بھی اَسی (٨٠) کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے، چوتھی صورت کا نام'' تعزیز'' ہے۔ تعزیز یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے جرم یا گناہ کا اِرتکاب کرے جس کا تعلق خدا سے یا بندوں کے حقوق سے ہو مثلاً نماز روزہ چھوڑنا یا کسی شخص کو ناحق اپنے ہاتھ سے تکلیف پہنچانا یا کسی شخص کو ایسی بری شرم اَور عار کی بات کہہ دینا کہ جس کے دو معنی ہوتے ہوں اگر ایک معنی مراد لیے جائیں تو شرعی حد لازم آ جاتی ہو اَور دُوسرے معنی لیے جائیں تو شرعی حد لازم نہ آتی ہو مگر اُس کی بے عزتی ضرور ہوتی ہو مثلاً کسی کو کافر یا فاسق یا فاجر یا سود خور یا شرابی یا چور کہہ دے تو اِس صورت میں تعزیزی سزا دی جائے گی جو بھی حاکم مناسب سمجھے چاہے ڈانٹ ڈپٹ کر دے یا کسی اَور طرح سرزنش کر دے یا چھڑی وغیرہ سے پٹائی کر دے یا زیادہ سے زیادہ اگر ضروری معلوم ہو تو کوڑے لگوا دے۔ ٭ اَور اگر کسی شخص نے کسی کو کتا، سور یا گدھا کہہ دیا تو اُس پر کوئی تعزیزی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ (بدائع الصنائع ص: ٦٣ ج ہفتم ، فتاوی شامی ص: ١٩٩ ج: ٣) ٭ اگر بیوی شوہر سے خرچ اَور کپڑا مانگتی ہے اَور اِصرار کرتی ہے تو اِس پر شوہر کو تعزیز کا حق نہیں کیونکہ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا جس کا کسی پر حق ہو وہ اُس کے بارے میں بات کرنے کا حق رکھتا ہے۔ (شامی ص: ٢٠٧ ج:٣) حاصل کلام یہ ہے کہ تعزیز ایسے گناہ پر ہوتی ہے کہ جس کے بارے میں شریعت نے کوئی سزا مقرر نہ کی ہو اُس گناہ کا تعلق خدا سے ہو یا بندوں سے اَور اُس میں حاکم کا زبانی نصیحت کر دینا، گھورنا، ڈانٹ ڈپٹ کرنا بھی شریعت کی نظر میں تعزیر شمار ہوتا ہے اَور ایسا شدید مجرم ہو تو کوڑے بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ (ب) لیکن اِسلام میں کوڑوں کا مقصد اُسے ذلیل کرنا ہے اِس لیے حد اَور تعزیر دونوں میں اِتنی زور سے نہ مارے جائیں گے کہ بدن کی کھال پھٹ جائے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اِس بارے میں اِمام اعظم ابو حنیفہ، اِمام مالک، اِمام شافعی اَور اِمام احمد، چاروں ہی ائمہ رحمة اللہ علیہم کے اِرشادات اَور اُن کا مسلک ہر ہر مسلک کی بڑی سے بڑی اَور معتبر ترین کتابوں سے لکھ دیا جائے تا کہ واضح ہو جائے کہ ہر مسئلہ پر سب کا اِتفاق ہے۔ لہٰذا اِختصار ملحوظ رکھتے ہوئے