ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
یہی مضمون مولانا سیّد محمد میاں صاحب ناظم جمعیة علماء ِہند نے اپنے رسالہ ''پاکستان کیا ہے '' میں نقل کیا ہے ۔حصہ دوم ص ٤٠ مطبوعہ دِلی پرنٹنگ ورکس دہلی۔ علامہ اِقبال سہیل کی طرح حضرت مولانا شمس الحق صاحب افغانی ١ نے اَشعار میں اَور مولانا سیّد سلیمان ندوی نے ایک مضمون میں حضرت مدنی کے مؤقف کی وضاحت اَور تائید کی ہے۔ سید صاحب کا مضمون اُس دور میں اَخبار ''الجمعیة '' میں شائع ہوا تھا اُن کا بھی جمعیة علمائِ ہند سے تعلق تھا ،١٩٢٦ء کے سالانہ اِجلاس جمعیة کی صدارت اُن ہی نے فرمائی تھی جو کلکتہ میں ہو اتھا۔ جناب جسٹس جا وید اِقبال صاحب ٢ سے گزارش : ان تصریحات کے بعد جناب جسٹس سے میری گزارش ہے کہ وہ'' عجم ہنوز نداند الخ'' کے اَشعار کو علامہ اقبال مرحوم کے مجموعۂ کلام سے حذف کر اکے ممنون فرمائیںاَور محترم مسعود صاحب جیسے حضرات سے عرض ہے کہ وہ اِس مشہور عوام غلطی کو اپنے اَذہان سے محو فرمادیں تاکہ حضرت مدنی پر غلط اِلزام کی جواب دہی سے خدا کے یہاں بچیں رہیں جس طرح خود علامہ نے ع چہ بے خبر ز مقامِ محمدۖ عربی اَست میں جناب ِ رسول کریم علیہ الصلوة والسلام کی قومیت ِعرب کا ذکر فرمایا ہے اَور جس طرح اُنہوں نے بچہ کی دُعا میں جو اسکولوں میں رائج ہے وطن کا ذکر فرمایا ہے ہو مرے دم سے یوں ہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت اَور رائج الوقت ترانہ ہے اے وطن میرے وطن پیارے وطن وغیرہ ۔ بس اِسی قدر وَطنیت کے حضرت مدنی بھی قائل تھے۔ رحمة اللہ علیھم ١ اِن کے اَشعار مع شرح تکملہ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ٢ ڈاکٹر ااِقبال صاحب مرحوم و مغفور کے صاحبزادے