ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
یک حکایت : اِس کے متعلق ایک حکایت سنی ہے گو کتابی نہیں ہے لیکن سمجھانے کے واسطے اِس کو بطورِ مثال کے بیان کرتا ہوں وہ یہ کہ ایک مرد و عورت بہت نیک تھے مگر اُن کے بچہ نہ ہوتا تھا بڑی دُعائوں اَور اُمیدوں کے بعد حمل ٹھہرا اَور بچہ کی اُمید ہوئی تو دونوں نے عہد کیا کہ دونوں زمانۂ حمل میں احتیاط اَور تقوی سے رہیں گے ،مرد نے بھی بہت احتیاط کی تاکہ اُس کے اَفعال کا اَثر عورت پر نہ پڑے اَور اُس عورت کا اَثر جنین (بچہ) پر نہ پڑے چنانچہ بڑی احتیاط کے بعد بچہ پیدا ہوا اَور اُس میں نیک و صلاح کے آثار ظاہر تھے جیسے جیسے بڑھتا گیا نیکی کے آثار نمایاں ہوتے گئے۔ ایک مرتبہ وہ ہوشیار ہوکر باپ کے ساتھ بازار جارہا تھا کہ ایک کنجڑے کے ٹوکرے میں سے ایک بیر اُٹھاکر کھالیا مرد کو حیرت ہوئی کہ یہ بات اِس میں کہاں سے آئی گھر آکر بیوی سے پوچھا کہ بتلائو کہ اِس میں یہ عیب کہاں سے آیا؟ معلوم ہوتا ہے کہ تونے حمل کے زمانہ میں کسی کی چوری کی ہے۔ عورت نے کہا کہ میں سوچ کر بتلائوں گی پھر سوچ کر بتلایا کہ ہمارے پڑوسی کی بیری کی ایک شاخ ہمارے گھر میں لٹک رہی ہے اُس میں سے بیر توڑکر میں نے کھالیا تھا کیونکہ میں نے غلطی سے اِس کو چوری نہیں سمجھا۔ جب جنین (ماں کے پیٹ میں بچہ) پر ہماری حرکتوں کا اَثر ہوتا ہے تو ہوشیار بچوں کی طبیعت پر کیوں نہ اَثر ہوگا گو وہ بات نہ کرسکتے ہوں مگر اَثر بات کا لیتے ہیں اِس واسطے اَولاد کی اِصلاح کے لیے عورتوں کی تعلیم کا اہتمام نہایت ضروری ہے۔ (التبلیغ وعظ الاستماع والاتباع) پس اَولاد کے نیک ہونے کے لیے پہلا درجہ تو یہ ہے کہ والدین خود نیک بنیں۔ اَولاد کو نیک بنانے کا دُوسرا درجہ : دُوسرا درجہ یہ ہے کہ پیدا ہونے کے بعد اِس کے سامنے بھی کوئی بے جاحرکت نہ کریں اگر چہ وہ بالکل نا سمجھ بچہ ہو کیونکہ حکماء نے لکھاہے کہ بچہ کے دماغ کی مثال پریس جیسی ہے کہ جو چیزاُس کے سامنے آتی ہے وہ دماغ میں منقش ہوجاتی ہے پھر جب اُس کو ہوش آتاہے تو وہی نقوش اُس کے سامنے آجاتے ہیں اَور وہ ایسے ہی کام کر نے لگتا ہے جیسے اُس کے دماغ میں پہلے ہی سے منقش تھے۔ غرض یہ مت سمجھ کہ یہ نا سمجھ بچہ ہے یہ کیا سمجھے گا۔ یاد رکھو! جو بھی کام تم اُس کے سامنے کرو گے اُن