ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
''ڈاکٹر اِقبال صاحب نے تو معافی مانگ لی لیکن لوگوں نے اُن کے کلیات سے قطعہ خارج نہیں کیا اَصل بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا معافی نامہ ٢٥ مارچ١٩٣٨ء کو شائع ہوا تھا اَور اُن کا اِنتقال ٢٠ اپریل ١٩٣٨ء کو ہو ا اَگر زیادہ دِن تک زندہ رہتے تو یقین ہے کہ وہ خود قطعہ کو کلیات سے خارج کر دیتے۔'' ( اِقبال کے ممدوح علماء ص ١٢٣ ) علامہ اِقبال سہیل کی یہ بلند پایہ نظم بیس اَشعار پر مشتمل ہے اِس کے چنداَشعار یہ ہیں : بلند تر بود اَز قوم رُتبۂ ملت کہ حَبلِ دین قوی تر ز رشتۂ نسبی است مگر بہ ہموطناں در جہادِ اِستخلاص مجاہدانہ تعاون ز روئے حق طلبی ست محبت وطن ست اَز شعائر ایماں ہمیں حدیث پیمبر فدیتہ بابی ست بگیر راہ حسین احمد اَر خدا خواہی کہ نائب ست نبی را و ہم ز آلِ نبی ست اِس کے بعد حضرت مدنی نے ایک تالیف بھی شائع کی جس میں اِس خلافِ اِسلام نظریۂ قومیت کی نفی فرمائی اِس کا نام ''متحدہ قومیت اَور اِسلام'' ہے۔ پھر اِسی نام سے اِسی مضمون کا رسالہ مولانا حفظ الرحمن صاحب جنرل سیکر یٹری جمعیة علمائِ ہند نے تحریر فرمایا جسے ناظم بستانِ اَدب دیوبند نے شائع کیا۔ اِس کا مقدمہ مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی نے لکھا ہے جو علامہ شبیر احمدصاحب عثمانی کے سگے بھتیجے ہیںاُنہوں نے حضرت مدنی کے خطبۂ صدارت اِجلاس جونپور کے حوالہ سے ص ٤ پر لکھاہے : ''یورپین لوگ قومیت متحدہ کے جو معنٰی مراد لیتے ہیں اَور جو کانگریسی اشخاص اِنفرادی طورپر معانی بیان کرتے ہوں اُن سے یقیناً جمعیة علماء بیزار اَور تبری کرنے والی ہے۔'' (خطبہ ٔصدارت اِجلاس جمعیة علماء ِہند جونپور ص ٤٥۔ ٤٦)