ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
گھر وہ ہے جس گھر میںکوئی یتیم با عزت طریقے پر رہتا ہو، اَور حضرت ابو ہریرہ صکی روایت میں یہ ہے کہ مسلمانوںکاسب سے اچھا گھرانہ وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ حسنِ سلو ک کیا جاتا ہو اَور سب سے بد ترین گھرانہ وہ ہے جس میںیتیم کے ساتھ برا سلوک برتا جاتا ہو۔ (الترغیب والترہیب ٣/٢٣٦) حضرت ابو دَرد اء ص فرماتے ہیںکہ ایک شخص حضور اکرم اکے پاس آکر اپنے دِل کی سختی کی شکایت کرنے لگا تو آپ انے اُس سے فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارے دِل میں نر می آجائے اور تمہاری ضرورت پوری ہوجائے تو تم یتیم پر رحم کیا کرو اَور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اَور اپنا کھانا اُسے کھلا دیا کرو تو تمہارا دِل نرم ہو جائے گا اَور تمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی۔( الترغیب و الترہیب ٣/٢٣٧) بہرحال اِسلام نے یتیموں کی خبر گیری پر بڑا زور دیا ہے، جو اِسلام کی اِنسانیت نوازی کی کھلی علامت ہے۔ بیواؤں اَور مسکینوں کی رعایت : معاشرے کے دَبے کچلے اَفراد جن کا کوئی سہارا نہ ہو اَور جن کی طرف سے کوئی وکالت کرنے کو تیار نہ ہو اُن کی حمایت اَوراُن کے حقوق کے تحفظ کے لیے جد و جہد بھی اِسلام میں انتہائی اہم ترین عمل ہے، قرآن کریم میں جابجا مسکینوں پررحم و کرم کی تلقین کی گئی ہے، نیز اَحادیث ِطیبہ میں بھی آنحضرت انے ایسے کمزور لوگوں کی حمایت کو اِنتہائی باعث ِاَجر و ثواب کا عمل قرار دیا ہے۔ حضرت صفوان بن سلیم صفرماتے ہیں کہ آنحضرت انے اِرشاد فرمایا کہ بیوہ اَور مسکین کی مدد کرنے والا شخص اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے اَور رات میں مسلسل نماز پڑھنے والے اَور دن میں مسلسل روزے رکھنے والے شخص کی طرح ہے۔ (بخاری ٢/٨٨٨، الترغیب و الترہیب ٣/٢٣٨)۔(جاری ہے)