ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
سے اِس کے اَخلاق پر ضرور اَثر پڑے گا۔ (حقوق البیت) حکماء نے لکھا ہے کہ دُودھ پیتا بچہ جو کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتا اُس کے سامنے بھی نامناسب کام نہ کرے تاکہ اُس کے متخیلہ (دِل و دماغ) پر اِن افعال کا اَثر نہ ہو بلکہ یہاں تک لکھا کہ جنین (بچہ کے ماں کے پیٹ میں) ہونے کی حالت میں بھی ماں کو اَچھے اَور پاکیزہ خیال رکھنا چاہیے، اِس کا بھی اَثر پڑتا ہے۔اِصلاح کا اَفضل طریقہ یہ ہے کہ جو کام دُوسروں سے کرا نا چاہتے ہو اُن کو خود کر نے لگو۔( حسن العزیز الکمال فی الدین للنسائ) شروع عمر میں بچہ کی تربیت و نگرانی کی زیادہ ضرورت ہے : بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اِبتدائے (شروع) عمر میں بچہ کی سمجھ ہی کیا ہوتی ہے جو وہ اچھی یابری بات کا اَثر لیں۔ بچپن میں اُن کی تربیت کر نے والا (پڑھانے والا) خواہ کیسا اَور کوئی بھی ہو، سمجھ آجانے کے بعد کسی نیک آدمی کے پاس اُن کو رکھنے کی ضرورت ہونی چاہیے۔ سو خوب سمجھ لیجیے کہ یہ خیال غلط ہے۔ بچپن میں جبکہ بچہ دُودھ پیتا ہے اُس وقت بھی اُس کے دماغ میںاَخذ کا مادہ ہوتا ہے (یعنی کسی بات کااَثر قبول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے) گو وہ زبان سے کچھ نہ کہہ سکے۔ اَور اِس کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ جیسے فوٹو گرافر کی تم جو کچھ کہتے ہو وہ سب اُس میں جا کر محفوظ اَور منقش ہوجاتا ہے گو اُس وقت آواز نہ نکلے لیکن جس وقت اُن نقوش پر سوئی چلے گی وہ سب باتیں اُس میں بعینہ نکلیں گی۔یہی حال بچوں کے دماغ کا ہے کہ اِبتدائی عمر میں بھی وہ سب باتوں کو اَخذکر کے محفوظ کر لیتا ہے گو اُس وقت اُن پر عمل نہ کر سکے یا زبان سے ظاہر نہ کر سکے پھر جب اُس میں بولنے اور عمل کرنے کی پوری قوت ہوجاتی ہے توپہلی باتوں کے آثار اِس سے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ (الکمال فی الدین للنسائ) ایک عقلمند تجربہ کار کا قول : چار پانچ سال کی عمر میں بچہ میں اَچھی یا بری عادتیں پختہ ہوجاتی ہیں۔ ایک تجربہ کار کامقولہ ہے کہ بچوں کی اِصلاح کا وقت پانچ سال تک ہے۔ اِس مدت میں جتنے اَخلاق اُس میں پختہ ہونے ہوتے ہیں پختہ ہوجاتے ہیں اِس کے بعد اُس میں پھر کوئی عادت پختہ نہیں ہوتی۔اِس سے معلوم ہوا کہ ہم جس زمانہ کو نا سمجھی کا زمانہ خیال کرتے ہیں وہی وقت بچوں کی اِصلاح کا ہے اَور بچے اِسی زمانہ میں سب کچھ اَخذ کر لیتے ہیں یعنی حاصل کر لیتے ہیں۔ (الکمال فی الدین للنسائ)