ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
سب سے بڑے بچہ کی اِصلاح و تربیت کی زیادہ ضرورت : ایک مسماة نے بیان کیا کہ بچوں کی اِصلاح کا سہل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے بچہ کی پوری طور پر تربیت کر دی جائے پھر سارے بچے اُسی جیسے اُٹھیں گے، جیسے کام کرتا ہوااِس کو دیکھیں گے اَگلے بچے (یعنی اُس کے چھوٹے بہن بھائی ) بھی وہی کام کریں گے اَور اُسی کی عادتیں اَور خصلتیں سیکھ لیں گے۔ (الکمال فی الدین للنساء ملحق حقوق الزوجین) تعلیم و تربیت اَور اچھی عادتیں سکھانے کی ضرورت : تیسرا درجہ یہ ہے کہ جب بچہ بڑا ہوجائے تو اُس کو دینی تعلیم سکھاؤ اَور خلاف ِ شریعت کا موں سے بچاؤ اَور نیک لوگوں کے صحبت میں رکھو، برے لوگوں کی صحبت سے بچاؤ۔ غرض جس طرح بزرگوں نے لکھا ہے اُسی طرح بچوں کی تعلیم کا اہتمام کرو۔ بعض عورتیں اِس میں بہت کوتاہی کرتی ہیں اَور بچوں کے اَخلاق کی درستگی زیادہ تر عورتوں ہی کے اہتمام کر نے سے ہو سکتی ہے کیونکہ بچے شروع میں زیادہ عورتوں کے پاس ہی رہتے ہیں۔ اَولاد کے یہ حقوق صرف عورتوں ہی کے ذمّہ نہیں بلکہ مردوں کے بھی ذمہ ہیں۔ (حقوق البیت) اکثر لوگ بچپن میں تربیت کا اہتمام نہیں کرتے۔ یوں کہہ دیتے ہیں کہ اَبھی تو بچے ہیں حالانکہ بچپن ہی کی عادت پختہ ہوجاتی ہے، جیسی عادت ڈالی جاتی ہے وہ آخر تک رہتی ہے اَور یہی وقت ہے اَخلاق کی درستگی اَور خیالات کی پختہ گی کا۔ بچپن کا علم ایسا پختہ ہوتا ہے کہ کبھی نہیں نکلتاالا ماشاء اللہ۔ چنانچہ بچہ شروع میں ماں باپ کی گود میں رہتا ہے اَور اُنہی کو ماں باپ سمجھتا ہے بعدمیں اَگر کوئی شک ڈالے کہ یہ تمہارے ماں باپ نہیں ہیں خواہ کتنے ہی لوگ شک ڈالنے والے ہوں تو کبھی شک نہ ہوگا، یہ ہے پچپن کے خیالات کی پختہ گی۔ (حسن العزیز)۔ (جاری ہے)