ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
ہم تو ایسا نہیں سمجھتے ہم تاریخ کے دونوں پہلو جانتے ہوئے بھی پاکستان کے اُن لوگوں سے زیادہ خیرخواہ وفادار اَور دُعاء گو ہیں جو اپنے آپ کو نظریۂ پاکستان کا حامی کہتے ہیں ہم اِسے مذہبی فریضہ جانتے ہیں ہم اِس پر اَزرُوئے حکم ِ شرعی قائم ہیں۔ اِس لیے ہم نے بنگلہ دیش بننے کی مخالفت کی تھی اَور آج بھی ہمارے دِل اِس پر رنجیدہ ہیں جبکہ وہ لوگ جو قائد ِ اعظم کے سپاہی ہونے کے مدعی تھے پاکستان توڑکر بنگلہ دیش بنارہے تھے کیونکہ اُن کے سامنے ایک مسلمانوں کے ملک کے توڑنے کے گناہ و اِدبار کا کوئی سوال ہی نہ تھا اُس وقت ہماری جماعت کی قیادت حضرت مولانا مفتی محمود صاحب اَور حضرت مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی رحمة اللہ علیہما کررہے تھے۔ مفتی صاحب نے شیخ مجیب مرحوم سے کہا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے تقسیم کی مخالفت کی تھی لہٰذا ہم اَب تقسیم دَر تقسیم کی مخالفت کررہے ہیں وہ فرماتے تھے کہ میں نے اُن سے ہاتھ جوڑکر کہا ''خدا کے لیے ایسے مطالبات و جذبات سے باز آجائو'' لیکن یہ قائد ِ اعظم کے نام لیوا مشرق میں تھے یا مغرب میں وہ سب کچھ کرکے رہے جو اُن کے دِل میں آیا۔ نظریۂ پاکستان اَور علماء : ہم تو یہ جانتے ہیں کہ نظریہ ٔپاکستان میں مسلمانوں کی اِقتصادیات اَور مذہب دونوں داخل ہیں اِس لیے ایک عالِم سے زیادہ مکمل نظریۂ پاکستان کا محافظ کوئی اَور نہیں ہوسکتا ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان حقیقی معنٰی میں پاکستان بن جائے کیونکہ یہاں آج تک اِتنا کام ہوا ہے کہ پاکستان کے مذہب کی تعیین کی گئی ہے کہ وہ اِسلام ہوگا اَور مسلک و قانون معین نہیں ہوا ہم چاہتے ہیں کہ وہ معین کیا جائے کہ حنفی ہوگا اَور ہمارا قانون اِسی فقہ پر مبنی ہوگا اَور شیعہ حضرات کے لیے فقہ جعفری پر مبنی قانون ہوگا اَور حنفی قانون ہی فوج میں نافذ ہوگا موجودہ سول لاء اَور مارشل لاء دونوں منسوخ کردِیے جائیں گے نئے مسائل پیش آئیں گے تو اُن میں اِجتہاد ہوگا اَور عدالتیں آزاد اَور بالادست ہوں گی۔ مسعود صاحب نے اپنا تعارف کرایا ہمیں اُن کی قدر ہے (خدا ہم سے اَور اُن سے اپنے دین کی اور خدمت لے)اُنہوں نے قائد اعظم کی تعریف کی وہ بھی بجا ...... مگر حضرت مدنی دُوسرے طبقہ کے مکرم تھے اَور جنہوں نے اُنہیں قریب سے دیکھا ہے وہ اُن کے مداح ہیں اَور معتقد۔ اگر قائد ِ اعظم دِلِ دردمند