ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
یہ ہے رشتہ داری کے بارے میں اِسلامی تعلیمات کا خلاصہ! اِس کے بر خلاف آج دُنیا میں روز بروز رشتے ناطوںکی اہمیت ختم ہو تی جارہی ہے اَور قرابت داری کے بندھن ٹوٹتے جارہے ہیں بالخصوص مغربی دُنیا میں ہر شخص مادر پدر آزاد ہے اَور ہر اِنسان صرف اپنے مفاد کو فوقیت دیتا ہے قرابت اَور عزیز داری کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی۔ ایسا بے نیاز اور خود غرض معا شرہ بھلا اِنسانیت نواز کیسے ہو سکتا ہے ؟ یتیموںکی خبر گیری : اِسلام نے اُن معصوم بچو ں کی خبرگیری کی تاکید کی ہے جو بچپن میں ہی باپ کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے ہیں۔ عام طور پر دُنیا میں یتیموں کا حال ناگفتہ بہ ہوتا ہے اَجنبی تو دُور رَہے خود اُن کے رشتے دار، اِن بے سہارا یتیموں کے حقوق غصب کرنے کے دَرپے رہتے ہیں اور یہ معصوم بچے اِنتہائی گھٹن اَور تنگی میں زندگی گزار دیتے ہیں، اِسلام نے جہاںاِن پر ظلم اَوراِن کے مال میں خیانت کو عظیم جرم قرار دیا ہے وہیں اِن کی خبر گیری اَور اِن کے ساتھ خیر خواہی کو اِنتہائی عظیم ثواب کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ قرآن میںیتیموں کے مال کو غصب کرنے والے ظالموں کوسخت وعید سناتے ہوئے فرمایا گیا : اِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَأْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَارًا ط وَّسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا. (سورة النساء آیت ١٠) ''جو لوگ کہ کھاتے ہیں مال یتیموں کا ناحق وہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھر رہے ہیں اَور عنقریب داخل ہوں گے آگ میں۔'' اَور آنحضرت ا نے یتیم کی کفالت کرنے والے کو خوش خبری سناتے ہوئے فرمایا کہ میں اَور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں دونوں اِس طرح ساتھ ہو ںگے جیسے کہ شہادت اَور بیچ کی اُنگلی۔(بخاری ٢/٨٨٨،الترغیب والترہیب ٣/٢٣٤) ایک اَور روایت میںآپ انے اِرشاد فرمایا کہ جوشخص کسی مسلم یتیم بچے کو قبضہ میں لے کر اُس کے کھانے پینے کا نظم کرے تو اُسے اللہ تعالیٰ جنت میں ضرور داخل کرے گا الایہ کہ وہ (خدا نخواستہ) ایسا گناہ کر بیٹھے جو نا قابلِ معافی ہو۔ (ترمذی ٢/١٣، الترغیب والترہیب٣/٢٣٥) حضرت ابن ِعمرص فرماتے ہیںکہ آنحضرت انے اِرشاد فرمایا کہ اللہ کی نظر میں سب سے اچھا