ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
تشریف لائے تو وہاں دیکھا کہ یہودیوں نے محرم کا روزہ رکھا ہے دسویں تاریخ کا، رسول اللہ ۖ نے اُن کوبُلاکر دریافت کیا کہ یہ کون سا روز ہے جس دِن تم روزہ رکھتے ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ یہ ہمارے لیے ایک عظیم الشان دِن ہے یَوْم عَظِیْم اَور اُس کی وجہ یہ ہے اَنْجَی اللّٰہُ فِیْہِ مُوْسٰی وَقَوْمَہ اُس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو اَور اُن کی قوم کو نجات دِلائی تھی اَور غَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَہ فرعون اَور اُس کی قوم کو ڈبودیا غرق کردیا تو حضرتِ موسٰی علیہ السلام نے شکر کے طور پر یہ روزہ رکھا تھا، اُس دن روزے سے ہوں یا اُس سے اَگلے سال سے روزہ رکھا ہو اُس دِن کا، بظاہر یہ ہے کہ اُس سے اَگلے سال سے اُس دن کا روزہ اُنہوں نے رکھا اَور یہ تاریخ چاند کی تاریخ سے اُنہوں نے لی کہ سال جو بنتا ہے اِس کا دن یہ آتا ہے تو یہ سال کون سا ہے عربی مہینوں سے جو سال بنتا ہے وہ ہے مراد،تو اِس واسطے ہم بھی اِسے قائم رکھے ہوئے ہیں کہ ہمارے نبی حضرتِ موسٰی علیہ السلام نے رکھا تھا تو ہم بھی یہ رکھتے چلے آرہے ہیں۔ توجنابِ رسول اللہ ۖ نے فرمایا فَنَحْنُ اَحَقُّ وَ اَوْلٰی بِمُوْسٰی مِنکُمْ ١ ہم زیادہ قریب ہیں زیادہ حقدار ہیں یعنی حق اُسی کا زیادہ ہوتا ہے جو قریب زیادہ ہو ہم زیادہ قریب ہیں بہ نسبت تمہارے حضرت موسٰی علیہ السلام سے ،اِس واسطے رسول اللہ ۖ نے بھی یہ روزہ رکھا ۔ یہودی صرف دعویدار ہیں جبکہ مسلمان عمل پیرا : وہ تو حضرت موسٰی علیہ السلام کو ماننے کے دعویدار تھے فقط، اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں تھے لیکن مسلمان تو اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہے اُن کی تعلیم یہی تھی کہ جب نبی آخرالزمان علیہ الصلٰوة والسلام آئیں تو وہ جو اَحکام لائیں گے وہ ماننا ۔ ''توحید'' کے متعلق تمام اَنبیاء کا مؤقف ایک ہے : باقی تو سب کی ایک ہی رہی ہے'' توحید'' کہ اللہ ایک ہے اَور جو نبی ہیں اُن سب پر جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں بالاجمال ایمان ہے ہمارا کہ سب سچّے تھے تو یہ تعلیم شروع دِن سے چلی آرہی ہے تو اَنبیائے کرام سب کے سب اِس بارے میں یک زبان ہیں یک دل ہیں کہ اللہ ایک ہے اَور خدا کے ساتھ اُس کی صفات میں کوئی شامل و شریک نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی وَحدانیت اُس کے یکتا ہونے پر سب کا اِیمان چلا آرہا ہے۔ ١ مشکوة شریف ص ١٨٠