ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
بیان میں جو اخبار اَنصاری میں شائع ہوا ہے مندرجہ ذیل الفاظ ہیں : ''لہٰذا ضرورت ہے کہ تمام باشندگان ِملک کو منظم کیا جائے اَور اُن کو ایک ہی رشتہ میں منسلک کر کے کامیابی کے میدان میں گامزن بنایا جائے۔ ہندوستان کے مختلف عناصر اَور متفرق ملل کے لیے کوئی رشتہ ٔ اتحاد بجز قومیت اَور کوئی رشتہ نہیں جس کی اَساس محض یہی ہوسکتی ہے۔ '' اِن الفاظ سے تو میں نے یہی سمجھا کہ مولوی صاحب نے مسلمانانِ ہند کو مشورہ دیا ہے اِسی بناء پر میں نے وہ مضمون لکھاجو اَخبار ''احسان'' میں شائع ہوا ہے لیکن بعد میں مولوی صاحب کا ایک خط طالوت صاحب کے نام آیا جس کی ایک نقل اُنہوں نے مجھ کو بھی اِرسال کی ہے اِس خط میں مولانا اِرشاد فرماتے ہیں : ''میرے محترم سر صاحب کا اِرشاد ہے کہ اگر بیان واقعی مقصود تھا تو اِس میں کوئی کلام نہیں ہے اَور اگر مشورہ مقصود ہے تو وہ خلاف ِ دیانت ہے۔ '' اِس لیے میں خیال کرتا ہوں کہ پھر الفاظ پر غور کیا جائے اَور اِس کے ساتھ ساتھ تقریر کے لاحق و سابق پر نظر ڈالی جائے۔ میں یہ عرض کررہا تھا کہ موجودہ زمانہ میں قومیں اَوطان سے بنتی ہیں یہ اِس زمانہ کی جاری ہونے والی نظریت اَور ذہنیت کی خبر ہے یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ ہم کو اَیسا کرنا چاہیے یہ خبر ہے اِنشاء نہیں ہے کسی ناقل نے مشورہ کوذکر بھی نہیں کیا پھر اِس کو مشورہ قرار دینا کس قدر غلطی ہے۔ '' خط کے مندرجہ ٔ بالا اِقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا اِس بات سے صاف اِنکار کرتے ہیں کہ اُنہوںے مسلمانانِ ہند کو جدید نظریۂ قومیت اِختیار کرنے کا مشورہ دیا لہٰذا میں اِس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ کو مولانا کے اِس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق اعتراض کرنے کا نہیں رہتا۔ میں مولانا کے اُن عقیدت مندوںکے جوش عقیدت کی قدر کرتا ہوں جنہوں نے ایک دینی اَمر کی توضیح کے صلے میں پرائیویٹ خطوط اَور پبلک تحریروں میں گالیاں دیں خدائے تعالیٰ اُن کو مولانا کی صحبت سے زیادہ مستفید