ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
سے نہیں بنتیں اِس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنی قومیت کی بنیاد وطن کو بنائیں اوکماقال ۔ جب یہ اَخباری اطلاع علامہ اقبال کے کان میں پڑی تو اُنہوں نے حضرت اَقدس سے اِستفسار یا تحقیق کیے بغیر یہ تین اَشعار سپرد قلم کردیے۔ عجم ہنوز نداند الخ ۔ اِن اشعار کی بناء پر ہندوستان کے علمی اَور دینی حلقوں میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا جس کی تفصیل اُس زمانہ کے روزانہ اَور ہفتہ وار اَخباروں سے معلوم ہوسکتی ہے۔ خوش قسمتی سے ایک دَردمند مسلمان جنہوں نے مصلحتًا ''طالوت'' کا نام اِختیار کر لیا تھا حقیقت ِ حال دریافت کرنے کیلیے حضرت مدنی کی خدمت میں ایک خط لکھا جس کے جواب میں حضرت موصوف نے ایک خط اُنہیں لکھا پھر طالوت صاحب نے حضرت مدنی کے اِس خط کے اقتباس ایک مکتوب میں علامہ اقبال کی خدمت میں لکھ کر بھیجے۔''( اقبال کے ممدوح علماء ص ٧٩) (اَور مکمل خط وکتابت کے لیے ملاحظہ ہو: اقبال کے ممدوح علماء ص ٨٠ تا ٨٥) غرض اِس خط وکتابت کے نتیجہ میں روزنامہ ''احسان'' لاہور میں حضرت مدنی کا بیان اَور علامہ اقبال کا تردیدی بیان شائع ہوگیا۔ (روزنامہ احسان لاہور مؤرخہ ٢٨ مارچ ١٩٣٨ئ) ''میں نے مسلمانوں کو وطنی قومیت اختیار کرنے کا مشورہ نہیں دیا۔ (حضرت مدنی کا بیان)۔ مجھے اِس اعتراف کے بعد اُن پر اعتراض کرنے کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔ (علامہ اقبال کا مکتوب)۔ جناب ایڈیٹر صاحب ''احسان '' لاہور السلام علیکم ! میں نے جو تبصرہ مولانا حسین احمد صاحب کے بیان پر شائع کیا ہے اَور جو آپ کے اَخبار میں شائع ہوچکا ہے اُس میں میں نے اِس اَمر کی تصریح کردی تھی کہ اگر مولانا کا یہ اِرشاد ''زمانہ ٔحال میں قومیں اَوطان سے بنتی ہیں '' محض برسبیل تذکرہ ہے تو مجھے اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اَور اگر مولانا نے مسلمانانِ ہند کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ جدید نظریہ ٔ قومیت کا اِختیار کرلیں تو دینی پہلو سے مجھے اِس پر اعتراض ہے مولوی صاحب کے اِس