ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
کو بھی کافر کہہ ڈالا تھا۔ مسعود صاحب نے لکھا ہے کہ : ''کسی عالم ِ دین کے سیاسی مسلک سے اِنحراف کفر واِلحاد نہیں۔ '' ٭ یہ تو ٹھیک ہے مگر میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کسی عالم کی مخالفت میں اِس پر تہمتیں لگانا بے تحقیق کسی عالم یا کسی بھی مسلمان کو حرام خور سود خور کہنا اَور بے سبب اَیسے بیانات جاری کرناکیا یہ بھی رَوا ہے؟ اگر یہ رَوا ہے تو ہمیں بھی اجازت ہونی چاہیے کہ ہم بھی کسی کے بارے میں با ثبوت اِسی قسم کی باتیں پیش کردیں۔ جناب مسعود صاحب لکھتے ہیں : ''مولانا حسین احمد مدنی نے جس وقت یہ فرمایا تھا کہ قومیں اَوطان سے بنتی ہیں علامہ اقبال نے فوراً کہا تھا عجم ہنوز نداند الخ'' ٭ اِس کے جواب میں عرض ہے کہ حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ نے یہ جملہ فرمایا ہی نہیں، نہ وہ اِس کے قائل تھے۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی ١ جنہیں قائد اعظم نے ایک دفعہ آسٹریلین مسجد(لاہور) میں اپنی جگہ طلباء سے خطاب کرنے کا شرف بھی بخشا تھا اَور اُنہیں مصور ِ پاکستان علامہ اِقبال کے شارح کلام ہونے کا وہ درجہ حاصل ہے جو کسی دُوسرے کو نہیں۔ وہ علامہ کے اِختلاف کا پورا قصہ یوں تحریر فرماتے ہیں : ''٨ جنوری ١٩٣٨ء کی شب میں حضرت مولانا مدنی نے صدر بازار دہلی متصل پل بنگش ایک جلسہ میں ایک تقریر فرمائی جس کا بڑا حصہ ٩ جنوری کے ''تیج'' اَور ''اَنصاری'' دہلی میں شائع ہوا ،چند روز کے بعد ''الامان'' اَور ''وحدت'' دہلی نے اِس تقریر کو قطع وبرید کے بعد اپنے صفحات میں جگہ دی، اِن پرچوں سے ''زمیندار'' اَور ''اِنقلاب '' لاہور نے اِس تقریر کو نقل کیا اَور یہ جملے حضرت اَقدس کی طرف منسوب کردیے کہ حسین احمد دیوبندی نے مسلمانوں کویہ مشورہ دیا ہے کہ چونکہ اِس زمانے میں قومیں وطن سے بنتی ہیں مذہب ١ واضح رہے کہ پروفیسر یوسف سلیم صاحب چشتی نے حضرت اقدس جو کہ صاحب ِ مضمون ہیں،کے دست ِمبارک پر بیعت کا شرف حاصل کر رکھا تھا۔(ادارہ)